آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابہ

آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابہ

*مولانا ابو النور راشد علی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ 2023ء


جب لفظِ ” صحابی “ زبان سے نکلتا ، کانوں میں سنائی دیتا یا کہیں لکھا ہوا نظر آتاہے تو فوراً ایک رشتے اور نسبت کا تصور ذہن میں آتاہے ” حضور خاتمُ النّبیین محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے والا وہ خوش نصیب جس نے آپ کی صحبت پائی ، خواہ ایک لمحہ کے لئے ہی سہی “

 جی ہاں ! یہ ایک تعلق ہے جو ذہن میں آتے ہی زبان رضی اللہ عنہ کہنے کے لئے لپکتی ہے ، دل و دماغ محبت ، عشق ، وفا ، جذبَۂ ایمانی اور جاں نثاری جیسی ملی جلی کیفیات سے لبریز ہو جاتے ہیں۔

ہم اللہ کریم اور اس کے پیارے اور آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے سے مسلمان ہوئے ہیں جبکہ ایمان کی یہ دولت ، اسلام کی نسبت اور قراٰن کی نعمت انہی نفوسِ قدسیہ صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کے وسیلے سے ہم تک پہنچی ہے۔

یہ عظیم جماعت ایسے ایسے فضائل ، خصائل ، خصائص اور شمائل کی مالک ہےکہ قراٰنی آیات اُن کی گفتار و کِردار پر صادق ہیں اور احادیثِ طیبات ان کی شان و عظمت بیان کرتی ہیں۔

یہی وہ عظیم گروہ ہے کہ جس کے بارے میں کہیں تو  وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ   [1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   فرما کر اُن کے قطعی جنّتی ہونے کا اعلان فرمایا گیا ہے تو کہیں رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ     [2](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  فرما کر اللہ کریم کی ان سے قطعی رضا اور ” ہرصحابی نبی جنّتی جنّتی “ کا مژدہ سنا یا جاتاہے۔

جب رسولِ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمن کا معاملہ آتا ہے تو اِن نفوسِ قدسیہ کو بارگاہِ الٰہی سے ” اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ  “  کا لقب ملتاہے اور جب باہمی تعلقات کی بات آتی ہے تو ” رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ   “ کے مختصر سے جملے میں صحابہ و اہلِ بیت کی سیرت کو بیان کردیا جاتا ہے۔

صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کو یہ جو مقام و عظمت اور شان و رفعت عطا ہوئی ہے ، اس کا سبب عطائے الٰہی کے ساتھ ساتھ ان کی وفاداریاں اور جان نثاریاں بھی ہیں۔آج 14صدیاں گزر گئیں ، اس کے باوجود قراٰنِ کریم ایک حرف کی بھی تبدیلی کے بغیر ہمارے پاس موجود ہے ، یہ مبارک کتاب صحابَۂ کرام علیہم الرضوان نے ہی کتابی صورت میں جمع کرکے ہم تک پہنچائی ہے۔ وفاداری اور سچی محبّت کی حقیقی مثالیں دیکھنی ہوں تو صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کی زندگانی کا مطالعہ کریں ، محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جانیں لٹانے کی داستانیں جاننا چاہیں تو سیرتِ صحابہ پڑھیں ، آج ہمیں نظرآنے والا اسلام کا تناور درخت کیسے ننھے پودے سے پروان چڑھا اس کا تصور جمانا ہو تو صحابَۂ کرام کی محنتوں کے بارے میں جانیں۔

صحابَۂ کرام کے عنوان سے یہاں کچھ اہم باتیں ہیں جن کے بارے میں ہر مسلمان کو جاننا چاہئے مثلاً :

 ( 1 ) صحابی کسے کہتے ہیں ؟  ( 2 ) کیا جنّوں میں بھی صحابی ہیں ؟ ( 3 ) کیا فرشتوں میں بھی صحابی ہیں ؟ ( 4 ) کیا وصالِ ظاہری کے بعدزیارت کرنے والے صحابی ہیں ؟  ( 5 ) صحابَۂ کرام کی تعداد کتنی ہے ؟  ( 6 ) صحابَۂ کرام کے طبقات ؟  ( 7 ) صحابَۂ کرام کی فضیلت و مقام میں ترتیب کیا ہے ؟  ( 8 ) سب سے پہلے صحابی کون ہیں ؟  ( 9 ) وصال پانے والے سب سے آخری صحابی کون ہیں ؟  ( 10 ) سیرتِ صحابہ کے بارے میں جاننے کے لئے کن کتابوں کا مطالعہ کریں ؟

صحابی کسے کہتے ہیں ؟

صحابی کہتے ہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پانے یا انہیں دیکھنے والے کو لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ صحبت و زیارت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ہو ، دیکھنے اور صحبت پانے والا مسلمان ہو اور اسلام پر ہی دنیا سے گیا ہو۔ علما و محدّثینِ عظام نے صحابی کی کئی تعریفات بیان کی ہیں جن میں سے جمہور محدّثین وفقہاء کے نزدیک معتبر ومستند تعریف شارح بخاری حافظ اِبنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کی ہے : اَلصَّحَابِیّ مَنْ لَّقِیَ النَّبِیَّ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّم مُؤْمِنًا بِہٖ ، ثُمَّ مَاتَ عَلَی الْاِسْلَام یعنی جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی ہو اوراِیمان ہی پراُن کا وصال ہوا ، اُن خوش نصیبوں کو ” صحابی “ کہتے ہیں ۔  [3]

خطیبِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : كُلُّ مَنْ صَحِبَهُ سَنَةً اَوْ شَهْرًا اَوْ يَوْمًا اَوْ سَاعَةً اَوْ رَاٰهُ فَهُوَ مِنْ اَصْحَابِہٖ یعنی ہر وہ  ( مسلمان )  جس نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پائی خواہ سال بھر ، مہینا بھر ، ایک دن یا ایک گھڑی یا جس نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی وہ آپ کے صحابہ میں سے ہے۔[4]

کیا جنّوں میں بھی صحابی ہیں ؟

واضح رہے کہ قومِ جنّات میں بھی صحابَۂ کرام تھے جنہوں نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں اسلام قبول کیا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت بھی پائی ، چونکہ جنّ بھی شریعت کے پابند ہیں اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کی طرف بھی رسول بن کر تشریف لائے ، قراٰنِ کریم کی سورۂ جنّ میں جنّات کے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہونے اور ایمان لانے کا ذکر موجود ہے۔ جنّ بھی صحابیِ رسول ہوئے ہیں ، شارحِ بخاری علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے اور مزید فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ مبارکہ میں ایمان لانے اور صحبت پانے والے جس جنّ کا نام معلوم ہو ان کا نام صحابہ میں ذکر کرنے میں کوئی تَرَدُّد نہیں ہونا چاہئے۔[5]

كتبِ سيرت و تراجم میں ان صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کے نام بھی مذکور ہیں جو قومِ جنّات میں سے تھے ، ان کی تعداد اور ناموں کے حوالے سے مختلف اقوال ہیں ، بعض نے 7اور بعض نے 9 تعداد بیان کی ہے جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس   رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ جزیرہ موصل سے 12ہزار جنّات بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے ، مختلف روایات سے مجموعی طور پر چند کے نام یہ ہیں : حِسّاً ، نَسَا ، شاصِر ، ماضِر ، اَدْرَس ، وَرْدان ، اَحْقَب ، مُنَشَّی ، ناشِی ، عَمْرو ، زَوْبَعَۃ ، سُرَّق ، زلعب ،  رِضوانُ اللہ علیہم اجمعین ۔[6]

کیا فرشتوں میں بھی صحابی ہیں ؟

فرشتوں کا صحابہ میں شمار ہونا یا نہ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ کیا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرشتوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے یا نہیں۔[7]  اس سے یوں سمجھ آتا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ نسبتِ صحابیت کا اعتبار اس مخلوق کا کیا جائے گا جن کی طرف آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شریعت کے احکام لے کر آئے اور جو شریعتِ اسلامیہ کے مکلّف قرار پائے ، تو چونکہ جنّات اور انسانوں کے مکلّف ہونے کا قراٰن ِ کریم میں بیان ہے تو شرفِ صحابیت بھی انہی میں رکھا گیا ، مگر محققین کی تحقیق یہی ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جمیع کائنات کے رسول ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت ساری کائنات کے لئے ہے۔

کیا وصالِ ظاہری کے بعدزیارت کرنے والے صحابی ہیں ؟

شرفِ صحابیت کے لئے شرط ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ ظاہری یعنی دنیوی حیات میں زیارت و صحبت پائی ہو ، اگر کسی نے پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پردہ فرمانے کے بعد اور تدفین سے پہلے جسمِ مبارک کی زیارت کی تو راجح قول یہی ہے کہ وہ صحابی نہیں ہے ، اگر اسے صحابی شمار کیا جائے تو پھر تو آج کے دور میں بھی اگر کسی کو جسمِ اطہر مبارک قبر میں دیکھنے کا اتفاق ہوگیا یا کسی ولی نے بطورِ کرامت و کشف کے جسمِ اطہر دیکھا تو وہ بھی صحابی شمار ہوگا حالانکہ ایسا نہیں ہے ، اگر کوئی کہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو اب بھی حیات ہیں تو اگرچہ وہ کریم آقا حیات ہیں ، زندہ ہیں لیکن وہ دنیوی حیات نہیں ہے ، اسی طرح اگر کسی نے خواب میں بھی زیارت کا شرف پایا تو وہ بھی صحابی شمار نہیں ہوگا۔[8]

صحابۂ کرام کی تعداد کتنی ہے ؟

صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کی تعداد کے بارے میں کوئی متفقہ اور معین عدد مروی نہیں ہے ، مختلف اقوال میں ایک لاکھ سے زائد تعداد بیان ہوئی ہے ، البتہ اس باب میں سب سے مشہور قول ابوزرعہ رازی کا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کی تعداد ایک لاکھ 14ہزار سے زائد تھی۔[9]

صحابۂ کرام کے طبقات

قبولِ اسلام ، ہجرت ، غزوات و سرایا میں شرکت اور دیگر اہم مواقع و معاملات کے اعتبار سے صحابَۂ کرام کو کچھ طبقات میں تقسیم کیا جاتاہے ، طبقاتِ ابن سعد میں 5 طبقات ذکر کئے گئے ہیں جبکہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے 12طبقات بنائے ہیں :

 ( 1 ) مکۂ مکرمہ میں اسلام قبول کرنے والے  ( 2 )  دارُ النّدوہ والے  ( 3 ) مہاجرینِ حبشہ  ( 4 ) اصحابِ بیعتِ عقبۂ اولیٰ  ( 5 ) اصحابِ بیعت عقبۂ ثانیہ  ( 6 ) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دخولِ مدینہ سے قبل ہجرت کرکے آپ سے ملنے والے  ( 7 ) اہلِ بدر  ( 8 ) غزوۂ بدر اور صلح حدیبیہ کے درمیانی عرصے میں ہجرت کرنے والے ( 9 ) شرکائے بیعتِ رضوان  ( 10 ) صلحِ حدیبیہ اور فتحِ مکہ کے درمیانی عرصے میں ہجرت کرنے والے  ( 11 ) فتحِ مکہ کے موقع پر اسلام قبول کرنے والے  ( 12 ) وہ بچّے جنہوں نے فتحِ مکہ یا حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی۔[10]

صحابَۂ کرام کی فضیلت و مقام میں ترتیب کیا ہے ؟

صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کی دوسروں سے فضیلت اور باہم مراتب    کی تفصیل کا خلاصہ کچھ یوں فرمایا ہے : بعدِ اَنبیا ء و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی اِنس و جن و مَلک  ( یعنی انسان ، جن اورفرشتوں )  سے اَفضل صدِّیقِ اکبر ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر عثمانِ غنی ، پھر مولیٰ علی پھربقیہ عشرۂ مُبشَّرہ و حضراتِ حسنین و اصحابِ بدر و اصحابِ بَیْعۃُ الرّضوان  رضی اللہ عنہم کے لئے   اَفضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں۔[11]عبارت میں فرشتوں سے مراد عام فرشتے ہیں کیونکہ صحابَۂ کرام علیہم الرضوان تمام فرشتوں سے افضل نہیں ہیں بلکہ فرشتوں میں سب سے اعلیٰ درجے والے فرشتے جنہیں ’’ملائکہ مقربین‘‘ کہا جاتا ہے ، جن میں عرش اٹھانے والے اور ” رسول فرشتے  “ جیسے جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل علیہمُ السّلام داخل ہیں ، یہ فرشتے تمام صحابَۂ کرام سے افضل ہیں۔[12]

سب سے پہلے صحابی کون ہیں ؟

سب سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پہلا صحابی ہونے کا شرف پایا اس میں مختلف اقوال ہیں اس کے بارے میں صدرالافاضل مفتی سیّدمحمد نعیم الدّین مرادآبادی ، امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : اگرچِہ صَحابَۂ کرام و تابعین وغیر ہم کی کثیر جماعتوں نے اس پر زوردیا ہے کہ ” صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ  “ سب سے پہلے مومن ہیں۔ مگر بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ سب سے پہلے مومن ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘‘ہیں۔ بعض نے یہ کہا کہ ” حضرت خدیجہ  رضی اللہ عنہا “ سب سے پہلے ایمان سے مُشَرَّف ہوئیں۔ ان اقوال میں اما مُ الْاَئِمّہ ، سراجُ الْاُمَّہ ، سیّدناامامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اِس طرح تطبیق دی ہے کہ مَردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر مشرَّف بایمان ہوئے اور عور توں میں حضرت اُمُّ المُؤمنین خدیجہ اور نَو عمر صاحبزادوں میں حضرت علی  رِضوانُ اللہ علیہم اجمعین ۔  [13]

وصال پانے والےسب سے آخری صحابی کون ہیں ؟

صحابَۂ کرام میں سے روئے زمین پر سب سے آخر میں وصال فرمانے والے حضرت سیّدنا ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں ، آپ نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک حیات سے 8سال کا عرصہ پایا ، آپ کا وصال 102ہجری میں مکۂ مکرمہ میں ہوا ، آپ کے بعد دورِ صحابہ مکمل ہوگیا۔[14]

سیرتِ صحابہ کے بارے میں جاننے کے لئے کن کتابوں کا مطالعہ کریں ؟

علمائے کرام اور محدّثین عظام نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی مبارک سیرت و دینی خدمات پر سینکڑوں مختصر و ضخیم کتب تصنیف فرمائی ہیں۔

صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کے تذکرہ و سیرت کا آغاز محدّثین عظام سے ہی نہیں بلکہ اس  سے کہیں پہلے ہوچکا ، تورات و انجیل میں بھی اصحابِ سرورِ کائنات کے اوصاف و کمالات کا ذکر آیا جبکہ سرکارِ دوجہاں محمد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دنیا میں جلوہ گر ہونے کے بعد اوّلاً تو قراٰنِ کریم میں ذکر آیا ، ثانیاً رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اپنی مبارک زبان سے ارشاد فرمایا ، اس کے بعد تدوینِ حدیث کے ساتھ ہی تدوينِ سیرتِ صحابہ کا بھی آغاز ہوگیا۔ اب تک سیرت و تعارفِ صحابہ پر سینکڑوں ضمنی اور مستقل کتب لکھی جاچکی ہیں ، ان میں سے چند اولین اور عربی کتب کا مختصر تعارف یہاں پیش کیا جاتاہے۔

الطَّبقاتُ الْكُبرىٰ : یہ کتاب مستطاب ابو عبد الله محمد بن سعد بن منيع البصری معروف بہ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ   ( وفات : 230ھ )  کی ہے۔ اس کی پہلی دو جلدوں میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ ہے جبکہ تیسری جلد سے صحابَۂ کرام کا تذکرہ ہے۔ آپ نے کتاب کو طبقات کے اعتبار سے مرتب کیا ہے ، اور تابعین کا بھی ذکر کیا ہے جبکہ آخری جلد میں صحابیات کا ذکرِ خیر ہے۔ یہ اپنے موضوع پر نہایت عُمدہ اور بہترین کتاب ہے۔

اَلْاِسْتِیْعَاب فِی مَعْرِفَۃِ الْاَصْحَاب : یہ حضرت سَیّدنا ابوعمر يوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ  ( وفات : 463ھ )  کی تصنیف ہے۔ آپ نے کوشش فرمائی ہے کہ سابقہ کتب میں جن جن صحابَۂ کرام کا تذکرہ مل جاتا ہے اور دیگر کتب میں شامل نہیں رہا ان سب کو بھی اپنی اس کتاب میں ذکر کریں ، اسی لئے اس کا نام بھی ” الاستیعاب “ رکھا ، البتہ پھر بھی بعض صحابۂ کرام کا تعارف اس میں مذکور نہیں۔ اس کتاب میں 3500صحابہ و صحابیات کا ذکرِ خیر ہے ، کتاب 4 حصوں میں تقسیم ہے ، اسمائے صحابہ ، کنیتِ صحابہ ، اسمائے صحابیات ، کنیتِ صحابیات۔ علامہ ابنِ عبد البر نے ہر حصے کو حروفِ تہجی  ( ا ، ب ، ت )  کے حساب سے ترتیب دیا ہے۔

اُسْدُ الْغَابَۃ فِی مَعْرِفَۃِ الصَّحَابَۃ : یہ مشہور مؤرخ حضرت علامہ عزالدین ابوحسن علی بن محمد بن محمد معروف بہ علامہ ابنِ اثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ  ( وفات : 630 )  کی تالیفِ لطیف ہے۔ اس کتاب کی ترتیب بھی حروفِ تہجی کے حساب سے ہے ، علامہ ابنِ اثیر نے اس ترتیب کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ باپ اور دادا تک کے نام میں بھی حروف تہجی کی ترتیب کو برقرار رکھا ہے۔ اس میں 7ہزار سے زائد کا تذکرہ ہے۔

اَلْاِصَابَۃ فِی تَمْیِیْزِ الصَّحَابَۃ : یہ مبارک کتاب حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن محمد بن احمد بن علی عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  ( وفات : 852ھ )  کی تالیف ہے۔ آپ نے صحابۂ کرام کا تذکرہ اسد الغابہ کی ترتیب پر کیا ہے۔یعنی پہلے صحابَۂ کرام باعتبار اسماء ، پھر وہ جو کنیت سے معروف ہیں ، اس کے بعد آخری جلد میں صحابیات اور آخر میں کنیت سے معروف صحابیات کا ذکر کیا ہے۔

ان کے علاوہ بھی سیرتِ صحابہ پر کثیرمستقل کتب ہیں جبکہ سینکڑوں کتابیں ضمناً ذکرِ صحابہ پر مشتمل ہیں۔

ذکرِ صحابۂ کرام اور دعوتِ اسلامی

دعوتِ اسلامی کے علمی و تحقیقی ادارے ” المدینۃ العلمیہ  ( اسلامک ریسرچ سینٹر )  “ سے بھی صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی سیرت اور شان و عظمت پر کئی کتب و رسائل شائع ہوئے ہیں ، ان کی فہرست درج ذیل ہے :

 ( 1 ) فیضانِ صدیقِ اکبر ( صفحات : 735 ) ،  ( 2 ) شانِ صدیقِ اکبر  ( صفحات : 17 ) ، ( 3 ) عاشقِ اکبر ( صفحات : 64 ) ، ( 4 ) اقوالِ صدیقِ اکبر  ( صفحات : 17 ) ،  ( 5 ) فیضانِ فاروقِ اعظم  ( 2جلدیں )   ( صفحات : 1720 ) ، ( 6 ) کراماتِ فاروقِ اعظم ( صفحات : 48 ) ، ( 7 ) کراماتِ عثمانِ غنی ( صفحات : 32 ) ، ( 8 ) حضرتِ عثمان بھی جنتی جنتی ( صفحات : 17 ) ، ( 9 ) کراماتِ شیرِخدا ( صفحات : 98 ) ،  ( 10 ) مولاعلی کے 72 ارشادات  ( صفحات : 17 ) ، ( 11 )  خلفائے راشدین ( صفحات : 339 ) ،  ( 12 ) حضرت سَیّدُنا ابو عبیدہ بن جراح  ( صفحات : 60 ) ، ( 13 ) حضرت سَیّدُنا زبیر بن عوام  ( صفحات : 72 ) ،  ( 14 ) فیضانِ سعید بن زید ( صفحات : 46 ) ،  ( 15 ) حضرت سَیّدُنا سعد بن ابی وقاص ( صفحات : 89 ) ،  ( 16 ) حضرت سَیّدُنا عبد الرّحمٰن بن عوف ( صفحات : 128 ) ،  ( 17 ) حضرت سَیّدُنا طلحہ بن عبید اللہ  ( صفحات : 56 ) ،  ( 18 ) فیضانِ حضرت عبد اللہ بن زبیر  ( صفحات : 17 ) ،  ( 19 ) فیضان ِامیرمعاویہ ( صفحات : 288 ) ،  ( 20 ) سیرتِ سَیّدنا ابو درداء  ( صفحات : 75 ) ، ( 21 ) صحابۂ کرام کا عشقِ رسول  ( صفحات : 274 ) ، ( 22 ) صحابی کی انفرادی کوشش  ( صفحات : 124 ) ،  ( 23 ) ہر صحابیِ نبی جنّتی جنّتی ( صفحات : 24 ) ،  ( 24 ) فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ ( صفحات : 84 ) ،  ( 25 ) فیضانِ عائشہ صدیقہ  ( صفحات : 608 ) ، ( 26 ) فیضانِ امہاتُ المؤمنین  ( صفحات : 367 ) ، ( 27 ) اُمہات المؤمنین  ( صفحات : 59 ) ،  ( 28 ) شانِ خاتونِ جنت  ( صفحات : 501 ) ، ( 29 ) آقا کے شہزادےوشہزادیاں  ( صفحات : 137 ) ، ( 30 ) امام حسن کی 30 حکایات ( صفحات : 28 ) ، ( 31 ) امام حسین کی کرامات  ( صفحات : 64 ) ، ( 32 ) امام حسین کے فضائل  ( صفحات : 17 ) ، ( 33 ) امام حسین کے واقعات  ( صفحات : 17 ) ،  ( 34 )  کربلا کا خونیں منظر  ( صفحات : 40 ) ،  ( 35 )  سوانح کربلا ( صفحات : 192 ) ، ( 36 ) آئینَۂ قیامت  ( صفحات : 108 ) ، ( 37 ) فیضانِ اہلِ بیت ( صفحات : 37 )

اَلحمدُ لِلّٰہِ تعالیٰ صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کے تذکرہ و سیرت پر دعوتِ اسلامی کے 7زبانوں میں شائع ہونے والے کثیر الاشاعت میگزین ” ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ میں بھی مضامین شامل ہوتے ہیں۔

اللہ کریم ہمیں ان عظیم نفوسِ قدسیہ کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور اپنی زندگیوں کو ان کی سیرت کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُالمدینہ ، نائب ایڈیٹر فیضانِ مدینہ کراچی



[1] ترجَمۂ کنزُالایمان : اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا۔  ( پ27 ، الحدید : 10 )

[2] ترجَمۂ کنزُالایمان : اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی۔  ( پ30 ، البینہ : 8 )

[3] نخبۃ الفکر ، ص111

[4] الکفایۃ فی علم الروایۃ ، ص51

[5] فتح الباری ، 7 / 4

[6] فتح الباری ، 8 / 674 ، الاصابہ ، 2 / 468-3 / 286

[7] فتح الباری ، 7 / 4

[8] فتح الباری ، 7 / 4

[9] تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ، جزء 2 ، ص675

[10] تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ، جزء 2 ، ص681

[11] بہارِشریعت ، 1 / 241 ، 249 بتغیر قلیل

[12] ہرصحابی نبی جنتی جنتی ، ص3

[13] تاریخ الخلفاء ، ص26

[14] مرقاۃ المفاتیح ، 7 / 675 ، تحت الحدیث : 4070


Share