رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ہم نشینی

روشن ستارے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہم نشینی

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہم نشینی کے جس ایک لمحہ نےایمان والوں کو ایک عام انسان سے اٹھا کر  صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم کی بلند مرتبہ صف میں  کھڑا کیا تھا اسی لمحےنے عزت و عظمت کا تاج ان کے سروں پر بھی سجا دیا۔ بابرکت ہم نشینی کا یہ پُر  کیف اور لطف اندوز سلسلہ مسلسل چلتا رہا لیکن اس کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں تھا ، جس کو جیسا موقع ملا اس نے شرف پالیا ، کبھی سفر میں تو کبھی حضر میں ، کبھی اجتماع میں توکبھی تنہائی میں ، کبھی دن میں تو کبھی رات میں ، امیر  ہو یا غریب  سبھی حاضر ہوتے ، البتہ عورتوں کو مسائل  سکھانے کے لئے علیحدہ وقت مخصوص کردیا گیا تھا۔

رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ گزارے ہوئے ہم نشینی کے یادگار اور حسین لمحات جس صحابی کو جس قدر یاد  رہے اور ان حسین یادوں کو آگے بڑھانے کا جس کو جتنا سنہری موقع مل سکاہر ایک نے اپنی اپنی طاقت و استعداد کے مطابق ان لمحات کو آگے بڑھانےاور امت تک پہنچانے  کا اعزاز پایا ۔ اور پھر صحابہ و تابعین سے ہوتے ہوئے  عُلَما ، محدثین اور سیرت نگاروں تک ہم نشینی  اور مجلسِ مُصْطَفَوِی کی یہ حسین یادیں تحریری صورت میں منتقل ہوتی رہیں اور دلوں کے خالی خانوں کو عشقِ مصطفٰے کے پانی سے سیراب کرتی گئیں۔

ایک مرتبہ کچھ لوگوں  نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : میں تم لوگوں کو  کیا بیان کروں ؟ میں تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوسی تھا ، جب نزول ِوحی ہوتا تو رسولِ کریم مجھے بُلوا لیتے اور میں وحی لکھ لیتا ، جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تو  رسولِ کریم اس میں ہمارا  ساتھ  دیتے ، جب کھانے کا تذکرہ کرتے تو رسولِ کریم  ہمارے ساتھ گفتگو میں شریک رہتے۔[1]آئیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہم نشینی پانے والوں پر ہونے والی کرم نوازیوں کے چند مختلف انداز ملاحظہ کیجئے :

 ہم نشینی کا حق بیان کرتے : ایک مرتبہ نبیِّ کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   اس کے لئے اپنی جگہ سے سَرک گئے ، اس نے عرض کی : یارسول اللہ ! جگہ تو  کشادہ موجود ہے ، ارشاد فرمایا : مسلمان  کا یہ حق ہے کہ جب اس کا بھائی اسے دیکھے ،  ( تو   ) اس کے لئے سرک جائے۔[2]

ہم نشینوں پر سختی نہ کرتے : نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نہ کبھی کسی کو نازیبا کلمات کہے ،  نہ کبھی کوئی کلمہ بے حیائی کا زبان سے نکالا اور   نہ کسی پر لعن طعن کیا ،  کسی   پر ملامت  کرنے کے وقت  یہ  کہہ دیا  کرتے تھے  : اسے کیا  ہوگیا اس کی  پیشانی خاک آلود ہو۔[3]

ہم نشینوں کی  تیمار داری فرماتے : خدمت گار بیمار پڑجاتے تھے توان کی عیادت کرتے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ    فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا نبیِّ کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی خدمت کرتا تھا وہ بیمار ہوگیا تو اس کی بیمار پُرسی کے لئے نبیِّ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے ، آپ اس کے سر کے پاس تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : اسلام لےآ !   اس نے قریب ہی موجود باپ کی طرف دیکھا۔ باپ بولا : بیٹا حضور ابوالقاسم کی بات مان لو ! یہ سن کر وہ لڑکا اسلام لے آیا ، نبیِّ رحمت  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ فرماتے ہوئے واپس ہوئے کہ خدا کا شکر ہے جس نے اسے آگ سے بچالیا۔  [4]

کبھی آنے والے کو بن مانگے عطا کرتے :  حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی سخاوت کسی سائل کے سوال ہی پر محدود و منحصر نہیں تھی بلکہ بغیر مانگے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں کو اس قدر زیادہ مال عطا فرما یا کہ عالَم ِسخاوت میں اس کی مثال نادر و نایاب ہے۔[5]  چنانچہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں   حاضر ہوا تو رحمتِ عالم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کو اتنی بکریاں دیں کہ وہ  دو پہاڑوں  کے درمیانی جنگل میں سما جائیں۔ اس نے اپنی قوم میں   جا کر کہا : اے میری قوم تم اسلام قبول کرلو اللہ کی قسم ! محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایسی سخاوت کرتے ہیں کہ فاقہ سے نہیں   ڈرتے۔[6]  

ڈائریکٹ اصلاح کرتے :  اس بارگاہ عالی میں آنے والوں میں سے کسی کی ظاہری حالت اچھی نہ ہوتی تو اس  کی اصلاح بھی کی جاتی تھی لہٰذا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی خدمت میں پَراگندہ بال اور ناپسندیدہ  ہَیئت میں حاضر ہو ا تو حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس مال نہیں ہے ؟ عرض کی : ہاں ہے۔ فرمایا : کس قسم کا مال ہے ؟  عرض کی : خدا کا دیا ہوا ہر قسم کا مال ہے اونٹ ، گائے ، بکریاں ، گھوڑے ، غلام۔ فرمایا : جب خدا نے تمہیں مال دیا ہے تو اس کی نعمت و کرامت کا اثر تم پر دکھائی دینا چاہئے۔[7]

کھانے میں  شریک کرتے :  بارگاہِ  عالی میں کھانے کےلئے  کچھ حاضر ہوتا تو اپنے صحابہ کو بھی اس میں شریک فرماتے ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں تازہ کھجوروں کا ایک طباق یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ ”صدقہ“ ہے۔ حضور رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے فرمایا : اس کو ہمارے سامنے سے اٹھا کر فقرا و مساکین کو دے دو کیونکہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔ حضرت سلمان فارسی دوسرے دن کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور یہ کہہ کر کہ یہ ”ہدیہ“ ہے سامنے رکھ دیا تو حضور سید دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابہ کو ہاتھ بڑھانے کااشارہ فرمایا اور خود بھی کھالیا۔[8]

ذکر و  عبادت کی ترغیب دلاتے : حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں  اعتکاف فرماتے اور فرمایا کرتے : شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں  تلاش کرو۔[9]

اسی طرح جب رات کے دو تہائی حصےگزر جاتے تو اٹھتے اور  فرماتے : اے لوگو ! اللہ کا ذکر کرو ! اللہ کا ذکر کرو ۔[10]

  پاکیزہ مزاح  ہوتا : ایک مرتبہ  ( خوش طبعی کرتے ہوئے  ) حضرت  انس سے فرمایا : اے دو کان والے !  [11]

ہم نشینوں کے خواب کی تعبیر بیان کی جاتی :  رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نمازِ صبح پڑھ کر حاضرین سے دریافت فرماتے ، آج کی شب کسی نے کوئی خواب دیکھا ؟ جس کسی نے دیکھا ہوتا عرض کردیتا ، پھر حضور رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی تعبیر بیان فرماتے۔[12]

روحانی طریقے سکھاتے :  حضرت جابر بن عبداللہ رضیَ اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم کو تمام اُمور میں  استخارہ تعلیم فرماتے جیسے قراٰن کی سُورت تعلیم فرماتے تھے۔[13]  مشہور مفسر حکیم الاُمَّت حضر  ت مفتی احمد یار خان اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں  : اِستخارہ کے معنی ہیں  خیر مانگنا یا کسی سے بھلائی کا مشورہ کرنا ، چونکہ اس دُعا و نماز میں  بندہ اللہ کریم سے گویا مشورہ کرتا ہے کہ فلاں  کام کروں یا نہ کروں  اسی لئے اسے اِستخارہ کہتے ہیں۔[14]

آخری لمحات میں بھی   ہم نشینی کا حق  ادا کرنے کا لحاظ رکھا

  جب  وصال مبارک کے دن  قریب آنے لگے تو  سب لوگوں کومسجد میں جمع کیا ، پھر حضرت فضل بن عباس  رضیَ اللہ عنہما پر سہارا لیتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے منبر پر جلوہ فرما ہوئے  اور ارشاد فرمایا : میں نے کسی کو سخت کلمات کہے ہوں تویہ میری آبرو ہے  وہ انتقام لے سکتا ہے ۔ میں نے کسی کی پیٹھ پر مارا ہو تو یہ رہی میری پیٹھ ،  وہ بدلہ لے سکتا ہے ۔ میں نے کسی کا مال لیا ہو تو یہ  رہا میرا مال ، وہ اس میں سے لے لے۔ ( بعد میں )  ہرگز کوئی شخص یہ نہ کہے کہ  ( میں بدلہ یا انتقام لے لیتا تو )  مجھے رسول اللہ کی طرف سے بغض و عداوت کا اندیشہ تھا ، سن لو ! یہ چیز نہ میری   فطرت میں  رکھی گئی ہے نہ میرے اخلاق میں  شامل ہے ، میرے نزدیک تم میں زیادہ اچھا وہ شخص ہے کہ جس  کا کوئی حق نکلتا ہو  تو  وہ مجھ سے لے لے تاکہ میں اپنے رَب سے  پاکیزہ نفس ہوکر ملوں۔ اتنے میں ایک مرد کھڑا ہوا اور تین   درہموں  کا مطالبہ کیا     تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پوچھا : کس طرح ؟ اس نے کہا :  میں نے فلاں دن آپ کو قرض دیا تھا ،  نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت فضل بن عباس کو حکم دیا کہ وہ اسے رقم ادا کردیں۔[15]

جن خوش نصیب حضرات  نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہم نشینی  کاشرف پایا اور اس دنیا سے باایمان رخصت ہوگئے انہوں نے آخرت کمالی اور اپنے پاک رب کو راضی کرلیا۔ اچھی صحبت اوراچھی ہم نشینی  یقیناً آخرت کو فائدہ پہنچاتی ہیں اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اچھی صحبت اختیار کریں  اور اچھے  ہم نشین  بنائیں ، ساتھ میں اللہ  کریم سے اچھے ہم نشین ملنے کی دعا بھی مانگتے رہنا چاہئے  جیسا کہ حضرت علقمہ رحمۃُ اللہ علیہ  کے بارے میں ملتا ہےکہ آپ ملکِ شام پہنچے ، مسجد میں داخل ہو ئے پھر دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی : اَللّٰہُمَّ یَسِّرْ لِیْ جَلِیْسًا صَالِحًا ترجمہ : اے اللہ ! مجھے نیک ہم نشین عطا فرما دے۔ دعا کے بعد  کچھ لوگوں کے پاس آئے کچھ دیر بعد  ایک بزرگ تشریف لے آئے  ، آپ نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ جواب ملا حضرت ابو درداء ۔ آپ نے    کہا : میں نے اللہ سے ایک  اچھا ہم نشین ملنے کی دعا کی ہے اس نے مجھے اچھا ہم نشین عطا کردیا۔[16]     پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت مبارکہ کا ہر ہر پہلو  نہ صرف روشن اور  بابرکت  ہے بلکہ   لائقِ  تقلید  اور  زندگیوں کو سنوارنے اور نکھارنے والا ہے لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے ہم نشینوں  سے اچھی اور پاکیزہ گفتگو کریں ،  نرمی  سے پیش آئیں ،  ایک دوسرے کو دعائیں دیں ، نماز  روزے اور ذکر و درود کی ترغیب دلائیں ، انہیں اچھی باتیں سمجھائیں ، ان میں کوئی برائی دیکھیں تو انہیں پیار محبت سے سمجھائیں ، کبھی کوئی مثال دیتے ہوئے اصلاح کریں ، مریضوں کی عیادت کو جائیں ، کوئی آئے تو خوش اسلوبی سے اس کا خیر مَقْدَم کریں ، اسی طرح گھر والوں کو وقت دیں ، خواتین کو  دینی تعلیم  دیں ،  ان کے اخراجات میں تنگی نہ کریں ، بچوں کو تحفہ دیں ، غلطی ہوجانے پر بے جا سختی نہ کریں ، انہیں بد دعا دینے سے بچیں ، انہیں اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے ، اچھی اور باوقار زندگی گزارنے کے آداب سکھائیں ، ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کریں ، انہیں محنت کرنے اور معاشرے  کا بہترین فرد بننے کا ذہن دیں ، اِن شآءَ اللہ ! پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی روشن سیرت پر عمل کرنے سے ہمارے دل بھی منور ہوجائیں گے  اور ہماری  دنیا و آخرت   دونوں بہتر ہوجائیں گی  ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئراستاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] طبقات ابن سعد ، 1 / 274

[2] شعب الایمان ، 6 / 468 ، حدیث : 8933

[3] بخاری ، 4 / 108 ، حدیث : 6031

[4] بخاری ، 1 / 456 ، حدیث : 1356

[5] سیرت مصطفیٰ ، ص : 624

[6] مسلم ، ص973 ، حدیث : 6020

[7] مسند احمد ، 5 / 383 ، حدیث : 15888

[8] طبقات ابن سعد ، 4 / 59

[9] بخاری ، 1 / 662 ، حدیث : 2020

[10] ترمذی ، 4 / 207 ، حديث : 2465

[11] ترمذی ، 3 / 399 ، حدیث : 1998

[12] بخاری ، 1 / 467 ، حدیث : 1386

[13] بخاری ، 1 / 393 ، حدیث : 1162

[14] مراٰۃ المناجیح ، 2 / 301

[15] مصنف عبد الرزاق ، 9 / 336 ، حدیث : 18364  ملتقطاً

[16] بخاری ، 2 / 544 ، حدیث : 3742


Share