شادی میں دیے جانے والے نیوتا کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے خاندان میں ولیمہ وغیرہ دعوتوں کے مواقع پر کچھ نہ کچھ پیسے دیئے جاتے ہیں اور نیت یہ ہوتی ہے کہ جب ہمارے ہاں شادی وغیرہ ہوگی تو یہ کچھ زیادتی کے ساتھ ہمیں مل جائیں گے مثلاً 1000 ہم نے دیا ہے تو یہ 1500 دیں گے اور ہم اگلی بار اس سے بھی کچھ زیادہ دیں گے، یہ باقاعدہ رجسٹر پر لکھا بھی جاتا ہے، اگر بالکل ہی وہ نہ دے تو ناراضگی کا اظہار اور برا بھلا بھی کہا جاتا ہے۔ دریافت طلب امر (پوچھنے کی بات) یہ ہے کہ مذکورہ صورتِ حال میں پہلے کم پیسے دینا پھر زیادہ پیسے لینا اور بالکل ہی نہ دیں تو نا راضگی کا اظہار کرنا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟
سائل:محمد سعید عطاری (مدرس کورس، صدر، باب المدینہ کراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شادی اور دیگر مواقع پر جو رقم دی جاتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں:(1)جہاں برادری نظام ہے اور وہ اس رقم کو باقاعدہ لکھتے ہیں کہ کس نے کتنا دیا ہے پھر جب دینے والے کے گھر کوئی دعوت ہوتی ہے تو یہ اس سے کچھ زیادہ رقم دیتا ہے، یہ بھی اس رقم کو لکھتا ہے۔ اس رقم کا حکم یہ ہے کہ یہ لینا جائز ہے مگر اس پر ثواب نہیں ملتا اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے البتہ اس رقم کا واپس کرنا فرض ہے اور اس صورت میں جس نے بغیر کسی عذرِ شرعی کے وہ رقم واپس نہیں کی، اس سے ناراضگی کا اظہار کرنا اور اسے برا بھلا کہنا جائز و درست ہے۔ (2)جہاں برادری نظام نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ عقیدت یا دوستی یا خیرخواہی کی نیت سے دیتے ہیں تو بلا اجازتِ شرعی اس کا مطالبہ کرنا یا نہ دینے پر ناراض ہونا، اس پر طعن و تشنیع کرنا (برا بھلا کہنا) غلط و باطل ہے۔ مذکورہ حکم کی وجہ یہ ہے کہ جہاں برادری نظام میں اسے لکھ کر رکھتے ہیں وہاں یہ رقم دوسرے شخص پر قرض ہوتی ہے، پھر جب وہ اس رقم کو لوٹاتا ہے تو اس پر مزید کچھ قرض چڑھا دیتا ہے مثلاً یہ 1000 روپے دے کر آیا تھا تو وہ اسے 1500 دیتا ہے جس میں 1000 کے ذریعے قرض سے سبکدوش ہوتا ہے اور باقی 500 اس پر مزید قرض ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ چونکہ یہ رقم لینے والے پر قرض ہے اس لیے اس کی ادائیگی کرنا فرض ہے اور اگر یہ بلا اجازتِ شرعی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو اس پر اظہارِ ناراضگی و مطالبے میں سختی فی نفسہٖ (بذاتِ خود) جائز لیکن عرفاً معیوب (بُرا) اور عموماً دوسرے کثیر گناہوں مثلاً قطع رحمی (رشتہ داروں سے تعلق توڑ دینا) وغیرہ کا ذریعہ بنتی ہے۔
اور جہاں برادری سسٹم نہیں یا غیربرادری کے لوگ عقیدت یا دوستی میں دیتے ہیں وہاں یہ رقم ہدیہ و تحفہ ہوتی ہے اور اس کے تمام احکام یہاں بھی جاری ہوں گے لہٰذامثلاً کسی نے 1000 روپے دئیے اور اس نے لے کر خرچ کر لیے تو اب دینے والا اس رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور جب لینے والے پر واپس کرنا ہی ضروری نہیں تو نہ دینے کی وجہ سے اس پر اظہارِ ناراضگی اور طعن و تشنیع کرنا بہت قبیح (بُرا) اور بری حرکت ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ بہر صورت (ہر حال میں) ہونا یہ چاہیے کہ اس رسم کو ختم کیا جائے اور صرف رضائے الٰہی پانے کے لیے جس کے ہاں دعوت ہو اسے رقم وغیرہ دی جائے تا کہ ہمیں اس پر ثواب بھی ملے اور برکت بھی۔ اور جو یہ چاہتے ہوں کہ ہم اس قرض سے بچ جائیں انہیں چاہیے کہ ابتدا میں ہی لوگوں سے کہہ دے کہ میں قرض لینا نہیں چاہتا، اگر مجھ سے ممکن ہوا تو میں بھی دینے والے کی تقریب میں کچھ خرچ کردوں گا۔ اس طرح جو رقم ملے گی وہ قرض نہیں، تحفہ ہوگی اور بعد میں واپس نہ بھی کی تو اس پر کوئی مواخذہ (بُرا) نہیں۔ اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے(وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-) ترجمۂ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی۔(پارہ 21، سورۃ الروم، آیت 39) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں (جاننے والوں) کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا، یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصاً لِلّٰہ تعالٰی (اللہ کی رضا کے لیے) نہیں ہوا۔“(تفسیر خزائن العرفان، صفحہ 754، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں: فتاوی خیریہ میں ہے: شادی وغیرہ میں ایک شخص جو چیزیں دوسرے کو بھیجتا ہے، اس کے بارے میں سوال ہوا کہ کیا ان کا حکم قرض کی طرح ہے اور اسے ادا کرنا لازم ہے یا نہیں؟ جواب ارشاد فرمایا: اگر عرف یہ ہو کہ لوگ بدل کے طور پر دیتے ہیں تو ادائیگی لازم ہے، اگر دی جانے والی مثلی ہے تو اس کی مثل لوٹائے اور قیمتی ہے تو قیمت واپس کرے۔ اور اگر عرف اس کے خلاگ ہو اور دینے والے یہ چیزیں بطور تحفہ دیتے ہوں نیز اس کے بدلے میں ملنے والی چیز کی طرف ان کی نظر نہ ہوتی ہو تو یہ تمام احکام میں ہبہ (تحفے کے طور پر دی گئی چیز) کی طرح ہے لہٰذا اس چیز کے ہلاک ہونے یا اس کو ہلاک کرنے کے بعد رجوع نہیں ہوسکے گا (یعنی اسے واپس نہیں لوٹایا جاسکے گا)۔ اور اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ جو معہود (ذہن میں طے) ہوتا ہے وہ مشروط کی طرح ہی ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ عرف ہمارے شہروں میں بھی پایا جاتا ہے، ہاں بعض علاقوں میں لوگ اسے قرض شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ ہر دعوت میں وہ ایک لکھنے والے کو بلاتے ہیں جو انہیں ملنے والی چیزیں لکھتا ہے اور جب دینے والا کوئی دعوت کرتا ہے تو وہ اسی لکھے ہوئے کی طرف مراجعت کرتا (دیکھتا) ہے اور پہلا دوسرے کو اسی طرح کی چیز دیتا ہے جیسی اس نے دی تھی۔(ردالمحتار، کتاب الہبہ، جلد8، صفحہ 583، کوئٹہ) سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:”نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 268، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیالاہور) ایک اور مقام پر آپ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:”اب جو نیوتا جاتا ہے وہ قرض ہے، اس کا ادا کرنا لازم ہے، اگر رہ گیا تو مطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کئے معاف نہ ہوگا والمسئلۃ فی الفتاوی الخیریۃ (اور یہ مسئلہ فتاوی خیریہ میں ہے۔) چارہ کار (بچنے کی صورت) یہ ہے کہ لانے والوں سے پہلے صاف کہہ دے کہ جو صاحب بطورِ امداد عنایت فرمائیں، مضائقہ نہیں مجھ سے ممکن ہوا تو اُن کی تقریب میں امداد کروں گا لیکن میں قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گا وہ اس کے ذمّہ قرض نہ ہوگا ہدیہ ہے جس کا بدلہ ہوگیا فبہا، نہ ہوا تو مطالبہ نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 586، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیالاہور) سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ قرض کی وصولی کے متعلق فرماتے ہیں:”قرض حسنہ دے کر مانگنے کی ممانعت نہیں، ہاں مانگنے میں بے جاسختی نہ ہو: (وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-) (ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک۔)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور اگر مدیون (مقروض) نادار (مفلس) ہے جب تو اسے مہلت دینا فرض ہے یہاں تک کہ اس کا ہاتھ پہنچے اور جو دے سکتا ہے اور بلا وجہ لَیت و لَعل (ٹالم ٹول) کرے وہ ظالم ہے اور اس پر تشنیع و ملامت (برا بھلا کہنا) جائز۔ قَالَ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمُ ولَیُّ الْوَاجِدِ یَحِلُّ مَالُہُ وَعِرْضُہُ (ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، غنی کا (ادائے قرض میں) ٹالم ٹول کرنا ظلم ہے اور مال ہوتے ہوئے ٹالم ٹول کرنا اس کے مال اور اس کی عزت کو حلال کردیتا ہے۔) (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 585-586، رضا فاؤنڈیشن، مرکز الاولیا لاہور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”شادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں اس کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں ہیں، ہر شہر میں ہر قوم میں جدا جدا رسوم ہیں، ان کے متعلق ہدیہ اور ہبہ کا حکم ہے یا قرض کا۔ عموماً رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دینے والے یہ چیزیں بطور قرض دیتے ہیں اِسی وجہ سے شادیوں میں اور ہر تقریب میں جب روپے دئیے جاتے ہیں تو ہر ایک شخص کا نام اور رقم تحریر کر لیتے ہیں جب اُس دینے والے کے یہاں تقریب ہوتی ہے تو یہ شخص جس کے یہاں دیا جاچکا ہے فہرست نکالتا ہے اور اُتنے روپے ضرور دیتا ہے جو اُس نے دئیے تھے اور اس کے خلاف کرنے میں سخت بدنامی ہوتی ہے اور موقع پاکر کہتے بھی ہیں کہ نیوتے کا روپیہ نہیں دیا اگر یہ قرض نہ سمجھتے ہوتے تو ایسا عرف نہ ہوتا جو عموماً ہندوستان میں ہے۔“(بہارشریعت، جلد 3، صفحہ 79، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”نیوتا بھی بہت بری رسم ہے جو غالباً دوسری قوموں سے ہم نے سیکھی ہے اس میں خرابی یہ ہے کہ ہم نے کسی کے گھر چار موقعوں پر دو دو روپے دئیے ہیں تو ہم بھی حساب لگاتے رہتے ہیں اور وہ بھی جس کو یہ روپیہ پہنچا۔ اب ہمارے گھر کوئی خوشی کا موقع آیا ہم نے اس کو بلایا تو ہماری پوری نیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص کم از کم دس روپے ہمارے گھر دے تاکہ آٹھ روپے ادا ہوجائیں اور دو روپے ہم پر چڑھ جائیں ادھر اس کو بھی یہ ہی خیال ہے کہ اگر میرے پاس اتنی رقم ہو تو میں وہاں دعوت کھانے جاؤں ورنہ نہ جاؤں، اب اگر اس کے پاس اس وقت روپیہ نہیں تو وہ شرمندگی کی وجہ سے آتا ہی نہیں اور اگر آیا تو دو چار روپے دے گیا۔ بہرحال ادھر سے شکایت پیدا ہوئی، طعنے بازیاں ہوئیں، دل بگڑے۔ بعض لوگ تو قرض لے کر نیوتا ادا کرتے ہیں۔“(اسلامی زندگی، صفحہ 25، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”جن لوگوں میں برادری نظام ہے ان میں نیوتا قرض ہی شمار کیا جاتا ہے، وہ لکھ کر رکھتے ہیں، کس نے کتنا دیا ہے، اُس کے یہاں شادی ہونے کی صورت میں اتنا ہی واپس کرتے ہیں، اِن برادریوں میں نیوتا قرض ہی سمجھا جاتا ہے اور جن برادریوں میں ایسا کوئی برادری کا قانون نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ دوستی، تعلقات اور عقیدت کی وجہ سے شادی میں کچھ دیتے ہیں وہ ہدیہ ہے۔“(وقارالفتاوی، جلد 3، صفحہ 117، بزم وقارالدین، باب المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبہ
محمد قاسم القادری
23ذیقعدۃ الحرام1437ھ/27اگست2016ء
علم و حکمت کے مدنی پھول
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:
(1)...اعلیٰ حضرت کے ”اَقُوْل“ پر ہماری عقول قربان، ان کا اَقُوْل ہمیں قبول۔(تعارف امیر اہلسنت، ص63)
(2)...علما کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے۔(تعارف امیر اہلسنت، ص57)
(3)...علما کو ہماری نہیں بلکہ ہمیں علما کی ضرورت ہے۔
Comments