اسلامی زندگی کا ایک پہلو ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی ہے ، کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم اپنی ناگواری کا اُس پر اظہار کردیں۔یادرکھئے! اس سے معاملات سُدھرتے نہیں بلکہ بگڑنے کا اِمکان(Chance) زیادہ ہوتا ہے۔سامنے والے نے ایک بات کی، ہم سے صبر اور برداشت نہ ہوا تو ہم نے ایک کی دس (10) سُنا دِیں تو بات بڑھ کر جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے،بعض تو ایسے نادان ہوتے ہیں کہ ان کا مزاج ماچس کی تِیلی کی طرح ہوتا ہے کہ ذرا سی رگڑ پر بھڑک اُٹھتے ہیں۔ اگر ساس بہو، نگران وماتحت، شوہر بیوی وغیرہ ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے کی عادت بنا لیں تو ناخوشگواری سے بچا جا سکتا ہے۔ کسی نے بے خیالی میں آپ کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا تو ’’اندھا ہے، دکھائی نہیں دیتا؟‘‘جیسے جملے بول کر غصے کا اظہار کرنے کے بجائے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کے لئے صبر و برداشت کا مظاہرہ کر کے ثوابِِ آخرت کا حقدار بنا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا فرمانِ عالیشان ہے
(وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) )(پ۴،اٰلِ عمرٰن:۱۳۴) ترجمۂ کنزالایمان:اور غصہ پینے والے اورلوگوں سے درگزر کرنے والے اورنیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ۔(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
بچوں کی امی نے کھانا وقت پر تیارنہ کیا ، کپڑے ٹھیک سے اِستری(Press) نہ ہوئے تو بھی برداشت کرکے گھریلو زندگی کو تلخ ہونے سے بچائیے، کیونکہ جن گھروں میں برداشت کم ہوتی ہے، وہاں سے جھگڑوں کی آوازیں بلند ہوا کرتی ہیں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عفو و درگزر اوربرداشت سے کام لے کر دنیاوی اور اُخروی فوائد حاصل کرنا ہی دانشمندی ہے ، سلطانِ دوجہاں،رحمتِ عالمیاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہوکہ اُسکے لیے (جنت میں)محل بنایا جائے اوراُسکے درجات بلند کیے جائیں، اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اورجو اُسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قطع تعلق کرے یہ اُس سے ناطہ جوڑے۔(مستَدرَک حاکِم،ج3،ص12، حدیث:3215)
کہتے ہیں:ایک آدَمی کی بیوی نے کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیا۔ اسے غُصّہ تو بَہُت آیا مگر یہ سوچتے ہوئے وہ غُصّہ پی گیا کہ میں بھی تو خطائیں کرتا رَہتا ہوں۔اگر آج میں نے بیوی کی خطاپر سختی سے گرفت کی تو کہیں ایسا نہ ہوکہ کل بروزِقِیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی میری خطاؤں پر گرفت فرمالے۔چُنانچِہ اُس نے دل ہی دل میں اپنی زَوجہ کی خطا مُعاف کردی۔ اِنتِقال کے بعد اس کوکسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا ؟ اُس نے جواب دیا کہ گناہوں کی کثرت کے سبب عذاب ہونے ہی والاتھا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا: میری بندی نے سالن میں نمک زیادہ ڈال دیا تھا اور تم نے اُس کی خطا مُعاف کردی تھی ، جاؤ!میں بھی اُس کے صِلے میں تم کوآج مُعاف کرتا ہوں۔
اگر ہمارے معاشرے کا ہر فرد یہ ذہن بنالے کہ میں صبر وتحمل اور برداشت کی عادت بناؤں گا تو ہمارا گھر ،محلہ ،شہر اور ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا۔اِن شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
Comments