شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ مدنی مذاکروں میں عقائد، عبادات اور معاملات کے متعلق کئے جانے والے سوالات کے جوابات عطا فرماتے ہیں، ان میں سے چند سوالات وجوابات ضروری ترمیم کے ساتھ یہاں درج کئے جا رہے ہیں۔
سُوال:کس نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے لوہے کا کام کیا ہے؟نیز کیا ہم یہ کام اُن کی سنت کی اَدائیگی کی نیت سے کرسکتے ہیں؟
جواب:حضرتِ سَیِّدُنا داؤُد عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے لوہے کا کام کیا ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب لوہے کو اپنے دَستِ مبارک میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا جیسا کہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 422 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’عجائبُ القرآن مع غرائبُ القرآن‘‘ صَفْحَہ 63 پر ہے :”حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام باوجودیہ کہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دَستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعۂ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔“
فی زمانہ لوہے کو بھٹی کے ذَریعے گرم کر کے نرم کیا جاتا ہے تو یوں بھٹی چلاتے وقت سنت کی ادائیگی کی نیت کا یہ موقع محلِ نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس طریقے کے مطابق اس کا سنَّت ہونا کہیں پڑھا ہے کیونکہ حضرتِ سَیِّدُنا داؤُد عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو بغیر بھٹی کے اپنے ہاتھوں سے ہی لوہے کو نرم کر کے زرہیں بنا لیا کرتے تھے ۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
چیونٹیوں کو بھگانے کا نسخہ !
سُوال :چیونٹیاں گھروں میں عموماً کھانے پینے کی اَشیاء میں گھس کر چیزوں کو خراب کر دیتی ہیں اور کاٹتی بھی ہیں تو کیا انہیں مارنا جائز ہے ؟ نیز انہیں بھگانے کا نسخہ بھی اِرشاد فرما دیجیے۔
جواب : چیونٹیاں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّکی مخلوق ہیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذِکر کرتی ہیں اِنہیں بلاوجہ نہیں مارنا چاہیے۔ ہا ں! اگر کاٹتی ہوں تو اپنے سے ضرر دُور کرنے کے لیے انہیں مار سکتے ہیں۔ اَلبتہ جہاں مارنے کے بجائے ہٹانے سے کام چل سکتا ہو تو پھر انہیں نہ مارا جائے مثلاً اگر کپڑوں یا بدن وغیرہ پر چڑھ گئیں تو کپڑے کو جھاڑنے یا پھونک مارنےکے ذریعے بھی اِنہیں دُور کیا جا سکتا ہے۔ یہ بہت ہی نازک ہوتی ہیں ،بعض لوگ انہیں بڑی بے دردی کے ساتھ پکڑتے یا بلاوجہ جھاڑو وغیرہ سے ہٹاتے ہیں جس سے یہ فوراً مر جاتی ہیں یاپھرسخت زخمی ہو کر تڑپتی رہتی ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
جہاں چیونٹیاں بہت زیادہ آتی ہوں تو انہیں بھگانے کے لیے پنساری کی دُکان سے ”ہینگ “خرید کر وہاں ڈال دیجیے یا اس کی چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں بنا کر وہاں رکھ دیجیے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ چیونٹیاں بھاگ جائیں گی ۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا پینا کیسا؟
سُوال : آج کل عموما ً کھانے پینے کی اَشیا ءکو پلاسٹک کی تھیلی میں رکھا جاتا ہے اور پلاسٹک کے برتن میں کھانا گرم کرنا اور کھانا پینا عام ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے اندر کچھ خطرناک کیمیکل ہوتے ہیں جو گرم ہونے پر کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جو کہ صحت کے لیے نقصان دِہ ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں خطرناک بیماریوں کا سبب بھی بنتے ہیں ،لہٰذا اُمَّت کی خیر خواہی کے لیے اس کے متعلق کچھ حکمت بھری باتیں بیان فرمادیجیے تاکہ ہم ان نقصانات سے محفوظ رہ سکیں۔
جواب:سائنسی تحقیق کے مطابق پلاسٹک کے برتنوں میں بعض خطرناک کیمیکل ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کے استعمال سے بعض اَموات بھی ہوئی ہیں۔ پلاسٹک کے برتنوں اور تھیلیوں میں گرم غذائیں مثلاً چائے وغیرہ ڈالنے یا پلاسٹک کے برتن میں رکھ کر مائیکرو ویو آون (Microwave Oven) میں کھانا وغیرہ گرم کرنے سے پلاسٹک میں موجود کیمیکل ان میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کو استعمال کرنے کی صورت میں یہ کیمیکل پیٹ میں پہنچ جاتے ہیں جس سے بال جھڑنے، بانجھ پن (یعنی بے اولادی)، گردے کی پتھری اور گردے کے دیگر اَمراض، بدہضمی، السر، جِلد یعنی اسکن کی بیماریاں، دِل کے اَمراض حتّٰی کہ کینسر ہوجانے کے اِمکانات پیدا ہو جاتے ہیں لہٰذا پلاسٹک کے برتن استعمال کرنے کے بجائے اسٹیل، شیشے، چینی، مٹی اور لکڑی کے برتن استعمال کیجیے۔ میرے آقااعلیٰ حضرت،امامِ اہلِسنَّت،مجدِّدِ دین و ملّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمسے تانبے، پیتل کے برتنوں میں کھانا پینا ثابت نہیں۔مٹی یا کاٹھ (یعنی لکڑی) کے برتن تھے اور پانی کے لئے مشکیزےبھی۔(فتاویٰ رضویہ،ج22،ص129)بعض روایات کے مطابق کانچ کے برتن بھی سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پاس تھے۔(سبل الھدی و الرشاد،ج7،ص361)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
روزانہ ایک سیب کھائیے اور خود کو ڈاکٹر سے بچائیے:
سُوال : موجودہ دَوائیں بعض اوقات منفی اَثرات بھی رکھتی ہیں ،اِن کے منفی اَثرات سے اپنے آپ کو کیسے بچایا جائے؟ نیز کہا جاتا ہے کہ ”روزانہ ایک سیب کھانا ڈاکٹر سے دُور رکھتا ہے“ یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب :اگر مرض ہلکا پھلکا ہو تو خود کو دَواؤں کا عادی بنانے کے بجائے بغیر اَدویات کے کام چلا لینا چاہیے کیونکہ تقریباً تمام ہی اَدویات کےضمنی اثرات (Side Effects) ہوتے ہیں اور خاص کر”اینٹی بائیوٹک“(Antibiotic)کےزیادہ ضمنی اثرات (Side Effects) سننے میں آئے ہیں کہ یہ بیماری کے جراثیم کو مارنے کے ساتھ ساتھ ضروری جراثیم کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے لہٰذا ذرا سے سر یا جسمانی درد کے لئےگولیاں (Tablets) نہ کھائی جائیں کہ یہ گُردوں کو ختم کر سکتی ہیں۔
اَدویات کے منفی اَثرات سے بچنےکا ایک حل میں نے طِب کی ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جو”اینٹی بائیوٹک“ ٹیبلٹ کھائیں تواس کے ساتھ دہی استعمال کریں تو یہ دہی اس کے سائیڈ افیکٹ کا توڑ کرے گا۔ بہرحال دہی بھی سب کو موافق آئے یہ بھی ضروری نہیں لہٰذا اپنے طبیب ہی سے رجوع کیا جائے کیونکہ بعض اوقات طبیب ”اینٹی بائیوٹک“ ٹیبلٹ کے سائیڈ افیکٹ کے توڑ کی بھی ٹیبلٹ دے دیتے ہیں۔
رہی بات ”روزانہ ایک سیب کھانا ڈاکٹر سے دُور رکھتا ہے“ تو یہ ایک محاورہ ہے جو سیب کےبہت زیادہ فوائد کے پیشِ نظر بولا جاتا ہے جسے ہم زمانے سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ روزانہ ایک سیب کھانا تو بیماری سے کیا بچائے گا، دَرحقیقت بیماریوں سے بچانے والی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ذات ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کی تمام ظاہری باطنی بیماریاں دُور فرما کر ہمیں صحت تندرستی اور عافیت والی زندگی نصیب فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پہاڑوں کو ایمان کا گواہ بنانا
سُوال :کیا ہم پہاڑوں کو اپنے ایمان کا گواہ بنا سکتے ہیں؟
جواب : جی ہاں ۔ کلمہ پڑھ کر پہاڑوں ، درختوں ، پتھروں، مٹی کے ڈھیلوں ، ریت کے ذرّوں اور بارش کے قطروں وغیرہ کو اپنے ایمان کاگواہ بنا سکتے ہیں۔ اِس ضمن میں سرکارِ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت کا پہاڑوں کو کلمۂ شہادت پڑھ کر گواہ بنانے کا واقعہ ملاحظہ کیجیے چنانچہ میرے آقااعلیٰ حضرت،امامِ اہلِسنَّت،مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن جبل پور کے سفر میں پہاڑوں کی سیر کے لیے جب تشریف لے گئے تو”کشتی نہایت تیز جا رہی تھی ، لوگ آپس میں مختلف باتیں کر رہے تھے، اِس پر اِرشاد فرمایا:”اِن پہاڑوں کو کلمۂ شہادت پڑھ کر گواہ کیوں نہیں کرلیتے!“(پھر فرمایا:)ایک صاحب کا معمول تھا جب مسجد تشریف لاتے تو سات ڈھیلوں کو جوباہر مسجد کے طاق میں رکھے تھے اپنے کلمۂ شہادت کا گواہ کرلیا کرتے ، اِسی طر ح جب واپس ہوتے تو گواہ بنالیتے۔ بعدِ انتقال ملائکہ ان کو جہنم کی طرف لے چلے، اُن ساتوں ڈھیلوں نے سات پہاڑ بن کر جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دیئے اور کہا:”ہم اس کے کلمۂ شہادت کے گواہ ہیں۔“ انہوں نے نجات پائی ۔ تو جب ڈھیلے پہاڑ بن کر حائل ہوگئے تو یہ تو پہاڑ ہیں۔ حدیث میں ہے :”شام کوایک پہاڑ دوسرے سے پوچھتا ہے :کیا تیرے پاس آج کوئی ایسا گزرا جس نے ذکرِ الٰہی کیا ؟ وہ کہتا ہے : نہ۔یہ کہتا ہے: میرے پاس توا یسا شخص گزرا جس نے ذکر الٰہی کیا ۔وہ سمجھتا ہے کہ آج مجھ پر( اسے) فضیلت ہے۔“یہ (فضیلت ) سنتے ہی سب لوگ بآوازِ بلند کلمۂ شہادت پڑھنے لگے، مسلمانوں کی زبان سے کلمہ شریف کی صدا بلند ہوکر پہاڑوں میں گونج گئی۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص313، 314)
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم واسِطیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ایک بار حج کے موقع پر میدانِ عَرَفات میں سات کنکر ہاتھ میں اٹھائے اور اُن سے فرمایا: اے کنکرو! تم گواہ ہوجاؤ کہ میں کہتا ہوں : ’’لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُولُہ‘‘ ترجمہ : اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اس کے بندہ ٔ خاص اور رسول ہیں۔پھر جب سوئے تو خواب میں دیکھا کہ مَحشر برپا ہے اور حساب کتاب ہورہا ہے، ان سے بھی حساب لیا جاتا ہے اور حُکمِ دوزخ سنایا جاتا ہے، اب فِرِشتے سوئے جہنَّم لیے جارہے ہیں جب جہنَّم کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو اُن سات کنکروں میں سے ایک کنکر دروازے پر آکر روک بن جاتا ہے پھر دوسرے دروازے پر پہنچے تو دوسرا کنکر اِسی طرح دروازے کے آگے آگیا، یونہی جہنَّم کے ساتوں دروازوں پر ہوا پھر ملائکہ عرشِ مُعلّٰی کے پاس لے کر حاضِر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے ابراہیم ! تو نے کنکروں کو اپنے ایمان پر گواہ رکھا تو ان بے جان پتَّھروں نے تیرا حقّ ضائِع نہ کیا، تو میں تیری گواہی کا حقّ کیسے ضائِع کرسکتا ہوں! پھر اللہ تبارَکَ وَتَعالیٰ نے فرمان جاری کیا کہ اسے جنَّت کی طرف لے جاؤ چُنانچِہ جب جنَّت کی طرف لے جایا گیا توجنَّت کا دروازہ بند پایا، کِلمۂ پاک کی گواہی آئی اور آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جنَّت میں داخِل ہوگئے۔(دُرۃ الناصحین ص 37)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
گاڑیوں کو سجانا اور چمکانا
سُوال :آج کل بہت سے لوگ اپنے آپ سے بھی زیادہ اپنی گاڑیوں (موٹرسائیکل، رکشہ ،کار اوربس وغیرہ ) کو سجاتے بلکہ دُلہن بناتے نظر آتے ہیں تو کیا گاڑیوں کو اس طرح سجانے کے لیے پیسہ خرچ کرنا اِسراف نہیں ؟
جواب :اپنی گاڑیوں (موٹرسائیکل، رکشہ ،کار اور بس وغیرہ ) کو سجانے اور چمکانے میں کوئی حرج نہیں جبکہ نیت اچھی ہو، لوگ اپنے گھروں،دُکانوں اور محلوں کو بھی تو سجاتے ہیں۔ ہاں! اگر لوگوں کو نیچا دِکھانے اور اپنی واہ وا ہ کروانے کی نیت سے ہو تو اس صورت میں فخر وریا کی وجہ سے منع ہے ۔اسی طرح اگر جانداروں کی تصاویر بنا کر زینت و سجاوٹ کی تو یہ زینت حرام ہے لہٰذا اچھی نیت سے جائز زیب وزینت کا اِہتمام کیا جائے جیسا کہ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے سو فیصد اسلامی ”مدنی چینل“ میں اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ پینا فلیکس (Pana flex)کے ذریعے جائز اور مباح زیبائش و آرائش کا اِہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ”مدنی چینل “دیکھنے والوں کا رجحان بڑھے اور وہ زیادہ سے زیادہ اِس سےفیضیاب ہو سکیں ۔
ظاہریسجاوٹ کے ساتھ ساتھ باطنی سجاوٹ مثلاً بریک، انجن اور آئل وغیرہ یہ چیزیں بھی ضرور دیکھ لینی چاہئیں ۔ عموماً جو لوگ ظاہری سجاوٹ کا اتنا اہتمام کرتے ہیں وہ ان چیزوں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور بڑی اِحتیاط کے ساتھ گاڑی چلاتے ہیں تاکہ کہیں ٹکرا نہ جائےیا کسی خرابی کے باعث اُلٹ نہ جائے۔ بہرحال جائز زیب و زينت جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں کے لیے حلال فرمائی ہے اس کے کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں چاہے وہ لباس ہو یا اور کوئی سامانِ زینت ۔اَلبتہ میرا اپنا ذہن سادگی کا ہے کیونکہ میرے میٹھے میٹھے آقا،مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو سادگی پسند تھی اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی سادگی کا یہ عالَم تھا کہ چٹائی پر آرام فرما لیتے ،کبھی خاک ہی پر سوجاتے اور اپنے ہاتھ مبارک کا سِرہانا بنا لیتے ۔
ہے چٹائی کا بِچھونا کبھی خاک ہی پہ سونا
کبھی ہاتھ کا سِرہانا مَدنی مدینے والے
تِری سَادَگی پہ لاکھوں تِری عاجِزی پہ لاکھوں
ہوں سلام عاجِزانہ مَدنی مدینے والے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
Comments