کھوئی ہوئی چیزوہیں سے مل جاتی ہے جہاں وہ گمُی تھی سوائے اعتبار(اعتماد) کے، کیونکہ جس شخص کا اعتبار ایک مرتبہ ختم ہوجائے دوبارہ مشکل ہی سے قائم ہوتا ہے ،اعتبار ختم ہونے میں اہم کردار" دھوکے "کا بھی ہے۔ جب ہم کسی سے جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یا گھٹیاچیز کو عمدہ بول کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے توحقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی ہم پر بھروسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔دھوکہ دینے کی بُری عادت نے تاجر اور گاہک، مزدور اور سیٹھ ،ڈاکٹر اور مریض کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کردیا ہے ، گاہک ڈرتا ہے کہ کہیں دکاندار پوری قیمت لے کر مجھے غیر معیاری چیز نہ تھما دے اور دکاندار کو خوف ہے کہ کہیں گاہک مجھے نقلی نوٹ نہ دے جائے۔
فی زمانہ جن دوستوں، گھرانوں، تاجروں وغیرہ میں اعتبار کا رشتہ مضبوط ہے وہ سکھی اور جنہیں کسی نے دھوکا دیا ہو وہ دُکھی دکھائی دیتے ہیں،دھوکا دینے والے سے اللہ عزوجل کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم نے ناپسندیدگی کااظہار کیا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّایعنی جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔(مسلم، ص۶۵، حدیث:۱۰۱)علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کسی چیز کی(اصلی)حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر،ج۶،ص۲۴۰،تحت الحدیث:۸۸۷۹)مثلاًکسی عیب دار چیز کو اس کا عیب چھپا کر بیچنا، جعلی یا ملاوٹ والی چیزوں کواصلی اور خالص کہہ کر بیچنا وغیرہ
مثنوی شریف میں ہے:ایک شخص مہمانوں کو کھلانے کے لئے آدھا سیر گوشت خرید کرلایا اور پکانے کے لئے بیوی کو دیا ، اس کی بیوی بہت چالاک اور نخرے باز تھی ، وہ جو کچھ گھر میں لاتا برباد کردیتی ، اس کاشوہر بھی اس سے بہت تنگ تھا ۔ بیوی نے گوشت بھُونا اور مہمانوں کے بجائے خود کھا گئی ۔ شوہر نے آکر پوچھا : گوشت کہاں ہے ؟ مہمانوں کو کھلا نا ہے ۔ بیوی نے ڈھٹائی سے جھوٹ بولا : وہ گوشت تو بلی کھا گئی ، چاہیے تو اور لے آؤ ۔ وہ آدمی بیوی کی یہ بات سن کر غصّے میں نوکر سے بولا : ترازو لاؤ ! میں بِلّی کا وزن کروں گا ۔ جب اس نے بِلّی کو تولا تو وہ آدھا سیرتھی ، یہ دیکھ کر شوہر بولا : اے عورت ! میں آدھا سیرگوشت لایا تھا ، اس بِلّی کا وزن بھی آدھا سیر ہے ، اگر یہ گوشت ہے تو بِلّی کہا ں ہے ؟ اور اگر یہ بِلّی ہے تو گوشت کہاں ہے ؟ (انوار العلوم مثنوی مولا نا روم ، دفتر پنجم ص۵۳۳ماخوذا)
فی زمانہ دھوکے اور فراڈ کی نت نئی صورتیں سامنے آتی رہتی ہیں، کہیں کوئی کسی کو ایس ایم ایس کرکے قرعہ اندازی میں انعام نکل آنے،یا کار وغیرہ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے رقم بٹورنا شروع کردیتا ہے تو کہیں کوئی کسی کی زمین کے جعلی کاغذات دِکھا کر زمین کی رقم وصول کرکے رفو چکر ہوجاتا ہے اورکہیں نوکری دلوانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے ،الغرض طرح طرح سے مسلمانوں کو دُکھ وتکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ دھوکا دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا،جب انہیں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا ہوگا ،چنانچہ حسابِ ِآخرت سے بچنے کے لئے یہیں دنیا میں سچی توبہ کرکے اپنا حساب بے باک کرلیں کہ جس جس سے رقم ہتھیائی ہے اس کو واپس کریں یا معاف کروالیں ،اگر وہ زندہ نہ ہوتو اس کے وارثوں کو ادائیگی کریں یا معاف کروا لیں ( اس طرح کے مسائل کے حل کے لئے دعوتِ اسلامی کے دارالافتاء اہلسنّت سے رابطہ کریں)۔اسی طرح مسلمانوں کو چاہئے کہ کسی سے بھی کوئی مالی لین دَین کرتے وقت تحریری معاہدہ کریں اور اس پر گواہ قائم کرلیں اور معاشرتی معاملات مثلاً رشتہ وغیرہ طے کرنے میں بھی ضروری معلومات حاصل کرنے کے بعد مطمئن ہوں تو ہی بات آگے بڑھائیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں دھوکادینے اوردھوکا کھانے سے بچائے۔آمین
Comments