میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!نکاح کا ایک مقصداچھے خاندان کی بنیاد رکھنا بھی ہوتا ہے، جس کے لیے شوہر کا کردار بڑا اہم ہے اور ”شوہر کو کیسا ہونا چاہیے؟“تو اس حوالے سے ہمارے لیے قرآن وسُنّت میں واضح رہنمائی موجود ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:( وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-) (پ۴، النساء: ۱۹) ترجمۂ کنز الایمان: اور ان(بیویوں) سے اچھا برتاؤ کرو۔(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حضور نبیِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے بہتر ہے۔‘‘ (ترمذی،ج5،ص475، حدیث:3921)نیز ارشاد فرمایا:جب تم خود کھاؤ تو بیوی کو بھی کھلاؤ اورجب خود پہنو تو اسے بھی پہنا ؤ اور چہرے پر مت مارو اور اسے بُرے الفاظ نہ کہو اور اس سے (وقتی)قطع تعلق کرنا ہو تو گھر میں کرو۔(ابو داود،ج2،ص356، حدیث:2142) اور یہ بھی فرمایا:سب سے بدترین انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں پر تنگی کرے۔عرض کی گئی: وہ کیسے تنگی کرتا ہے؟ ارشاد فرمایا: جب وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیوی ڈر جاتی ہے، بچے بھاگ جاتے اور غلام سہم جاتے ہیں اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو بیوی ہنسنے لگے اوردیگر گھر والے سُکھ کا سانس لیں۔(معجم اوسط،ج6،ص287،حدیث :7898)
جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ ہوتے سب سے زیادہ نرم طبیعت،خوش طبعی اور مسکرانے والے ہوتے۔(کنزالعمال،ج7،ص48،حدیث:18323)اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ سلطانِ مکّہ مکرّمہ ، سردارِمدینہ منورہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے کپڑے خودسی لیتے اوراپنے نعلینِ مبارَکَین گانٹھتے اوروہ سارے کام کرتے جومرداپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ (کنزالعمال،ج4،ص60،جز7،حدیث:18514)اورایک بارحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے پیالے سے پانی پیا تو حضورنبیِ مکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پیالہ لے کر اُسی جگہ منہ لگا کر پانی نوش فرمایا،جہاں سے اُمُّ المؤمنین نے پیاتھااور ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ایک ہڈّی سے گوشت نوچ کر کھایا تو حضور نبیِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے لے کر وہیں سے گوشت تناول فرمایا جہاں سے انہوں نے کھایا تھا۔(شرح سفر السعادۃ ،ص445)
چنانچہشوہرکو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ بیوی کو دین کی بنیادی باتیں سکھائے یا اس کا اہتمام کرے ،اُس کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئے،نرمی کے ساتھ گفتگو کرے،ممکن ہوتو گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹائے ،جیسا خود کھائے ویسا اُسےکھلائے،اُسے بُرے الفاظ نہ کہے،اس کے عیب چھپائے ، کسی کی اپنی بیوی سے جنگ رہتی تھی اس کے ایک دوست نے پوچھا کہ تیری بیوی میں خرابی کیا ہے ؟ وہ بولا کہ تم میرے اندرونی معاملات پوچھنے والے کون ہو ؟ آخر اسے طلاق دے دی، اس سائل نے کہا کہ اب تو وہ تمہاری بیوی نہ رہی اب بتاؤ اس میں کیا خرابی تھی؟ یہ بولا: وہ عور ت غیر ہوچکی مجھے کسی غیر کے عیوب بتانے کا کیا حق ہے ؟(مرأۃ المناجیح،ج5،ص61)
مزید یہ کہ شوہر کو چاہئے کہ بیوی کی لغزشوں (غلطیوں) سے درگزرکرے اورلڑائی جھگڑانہ کرے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیوی کو حُکم دیتے رہنا مَثَلاً یہ اُٹھا دو ،وہ رکھ دو ،فُلاں چیز ڈھونڈ کر لادو وغیرہ سے بچنا اور اپنا کام اپنے ہاتھ سے کر لینا گھر کو اَمن کا گہوارہ بنانے میں مدد دیتاہے۔نیز اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بیوی کو نیند سے جگادینا،کام کاج اور جھاڑو پَوچے کے دَوران ،آٹا گوندھتے ہوئے،نیز دردِسر ،نزلہ یا دیگر بیماریوں کے ہوتے ہوئے اُن کو کام کے آرڈر دیئے جانا گھر کے ماحول کو خراب کرسکتا ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں باکردار مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
Comments