اللہ تعالٰی نے نبیِّ رحمت،شفیعِ اُمّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو جہاں بے مثال بشرہونے کا شرف عطا فرمایا وہیں حِسّی و معنوی نورانیت سے بھی نوازا۔ حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں:حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں۔ظاہِری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔(رِسالۂ نورمع رسائل نعیمیہ، ص 39) سب سے پہلے نورِمحمدی کی تخلیق ہوئی: حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو حضور پُرنور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوداپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا:اے جابر! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔( الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63، حدیث:18، مواھب لدنیہ،ج1،ص36) حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں نور تھا۔ (مواھب لدنیہ،ج1،ص39) حضورنبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی۔ (پھرحضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:)آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارا بیٹا احمد ہے،یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے اور یہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، ج5،ص483)
نورانیتِ مصطفٰے بزبانِ اصحابِ مصطفٰے:صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے نبیِ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نورانیت کےجلووں کو دیکھا تو سب نے اپنےاپنےاندازمیں اظہار کیا: (1)حضرت سیّدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا:حضورانور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنےکے مبارک دانتوں میں کُشادَگی تھی، جب آپ گفتگو فرماتے تو اُن میں سے نور دکھائی دیتا تھا۔(جامع صغیر، ص403، حدیث:6482)شیخ الاسلام علّامہ عبدالرءوف مُناویعلیہ رحمۃ اللہ الکافی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :یہ نور محسوس ہوتا تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کُل ذاتِ شریفہ ظاہری و باطنی طور پر نور تھی حتّٰی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب میں سے جس کو چاہتے اُسے نور عطا فرماتے جیسا کہ حضرت سیّدنا طفیل بن عَمرودَوسی رضی اللہ تعالٰی عنہ کوعطافرمایا۔(فیض القدیر، ج5،ص93 ملخصاً) (2)حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: بَوَقتِ سحر کھو جانے والی سوئی حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ انور کی روشنی کی کرن سے مل گئی۔(القول البدیع، ص302 ملخصاً) (3)حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: جب نبیٔ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تو درو دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے۔(مصنف عبدالرزاق،ج 10،ص242، حدیث: 20657 ملتقطاً) نورانی بشریت: یاد رہے! نور اور بشر ایک دوسرے کی ضد نہیں کہ ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں کیونکہ حضرت جبریل علیہ السَّلام نوری مخلوق ہونے کے باوجود حضرت سیّدتنا بی بی مریم رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سامنے انسانی شکل میں جلوہ گَر ہوئے تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ حکیم میں ہے: (فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا(۱۷)) (پ16، مریم:17) ترجمۂ کنز الایمان : تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔“(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نیزحضرت مَلَکُ الموت علیہ السَّلام بشری صورت میں حضرت سیّدناموسیٰ کلیم اللہ علٰی نَبِیِّنَا وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔( بخاری،ج1،ص450،حدیث:1339)بزرگانِ دین کا عقیدہ: جلیل القدر مُفَسِّرین،مُحَدِّثِیْن، علمائے ربّانِیِّین اور اولیائے کاملین نے بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور ہونے کو بیان فرمایا۔جیسا کہ قراٰنِ مجید کی آیت: (قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)) (پ6،المآئدۃ:15) (ترجمۂ کنز الایمان:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کے تحت امام ابو جعفر محمد بن جَرير طَبَری (سالِ وفات 310ہجری)،امام ابومحمد حسین بغوی(سالِ وفات 510ہجری)،امام فخرالدین رازی(سالِ وفات 606ہجری)،امام ناصرالدین عبد اللہ بن عمربَیضاوی(سالِ وفات685 ہجری)، علّامہ ابوالبرکات عبداللہنَسَفی(سالِ وفات 710ہجری )علّامہ ابوالحسن علی بن محمد خازِن(سالِ وفات 741ہجری)، امام جلال الدین سُیُوطی شافعی (سالِ وفات 911ہجری) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سمیت کثیر مُفَسِّرین نے فرمایا کہ اس آیتِ طیبہ میں موجود لفظ”نور“ سے مراد نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرَکات ہے۔ حضرت علامہ قاضی عِیاض مالکی (سالِ وفات 544ہجری) علیہ رحمۃ اللہ الہادِی فرماتے ہیں:حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ سورج چاند کی روشنی میں زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نور ہیں۔(الشفا،ج1،ص368) نورِ مصطفٰے غالب آ گیا: شارحِ بخاری، امام احمدبن محمد قَسطلانی(سالِ وفات 923ہجری) قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جب ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور کو پیدا فرمایا تو اُسے حکم فرمایا کہ تمام انبیاکے نور کو دیکھے چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام انبیاکے نور کو ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکےنورسےڈھانپ دیا۔انہوں نے عرض کی: مولیٰ! کس کے نور نے ہمیں ڈھانپ لیا؟ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا: ہٰذَا نُورُ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبدِاللہ یعنی یہ عبداللہ کے بیٹے محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا نور ہے ۔(المواھب اللدنیۃ،ج1،ص33)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!نورانیتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےمتعلّق تفصیل جاننے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کارسالہ”صِلَاتُ الصَّفَاءِ فِیْ نُوْرِ الْمُصْطَفٰے“(فتاویٰ رضویہ،ج 30،ص657) اورحکیم الاُمّت مفتی احمدیار خان علیہ رحمۃ الحنَّان کے رسائلِ نعیمیہ میں شامل”رسالۂ نور“ کا مطالعہ بےحد مفید ہے۔
دعا ئے عطّاراوررسائل کے مطالعہ
کی دُھوم دھام
شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اکتوبر 2017ء میں مختلف کتب و رسائل پڑھنے کی ترغیب دلائی اور مطالعہ کرنے والوں کو دعاؤں سے نوازا :(1)یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ !جو کوئی مکتبۃ المدینہ کا رسالہ،’’سمندری گنبد‘‘14-10-17تک مکمل پڑھ لے اُسے بروزِ قیامت ماں باپ کے فرماں برداروں میں اُٹھا۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کارکردگی: کثیراسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رسالے کو پڑھا، صرف ایک ہفتے میں یہ رسالہ تقریباً 24335 کی تعداد میں فروخت ہوا۔ (2) یا ربَّ المصطفٰی! رسالہ،’’ظلم کا انجام‘‘21-10-17 تک جو پورا پڑھ لے، نہ وہ خود ظالم بنے،نہ اُس پر کبھی ظلم ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کارکردگی:صرف پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد اسلامی بھائیوں اور بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے کی سعادت پائی جبکہ تقریباً انتیس ہزار (29000)کی تعداد میں فروخت ہوا۔(3)یاالٰہی!جو بچہ یا جوان رسا لہ،’’ جوانی کیسے گزاریں؟‘‘17-10-28تک پڑھ لے اُسکی زندگی تیری رضا کے مطابق گزرے،اور جو بزرگ پڑ ھے اُس کی جوانی کی خطائیں مُعاف فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کارکردگی: تقریباً ایک لاکھ اسلامی بھائیوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا ۔یہ رسالہ تقریباً44ہزارکی تعداد میں بِکا۔ (4)مولائےکریم! رسالہ،’’بدشُگونی‘‘جو کوئی4-11-17 تک پڑھ لے ،وہ بدشُگونی کی برباد کُن بیماری سے ہمیشہ محفوظ رہے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کارکردگی:اس رسالے کا بھی 92000 سے زائداسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے مطالعہ کر نے کی سعادت پائی۔
دعائے عطّار: یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! جوکوئی تاریخ گزرنے کے بعد بھی ان رسائل کامُطالَعہ کرلے اُس کے حق میں بھی یہ دعائیں قَبول فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم
Comments