حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نرم دلی
نبیّ ِرحمت،شفیعِ امت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالَم کے لئے رحمت اور نرم دل بنا کر بھیجے گئے جیساکہ قراٰنِ پاک میں ارشادِ باری تعالٰی ہے: (فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-) تَرجَمۂ کنز الایمان:تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے۔(پ4،اٰل عمرٰن:159)
سرکارِ مدینہ،راحتِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی کا مطالَعہ کیا جائےتو اس میں جابجا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفقت ،نرمی اور مہربانی کا بے مثال انداز نظر آتا ہےجو نہ صرف جن و اِنْس بلکہ چَرِند و پَرِند، شجر و حجرسب کے لئے عام تھی، کچھ جھلک ملاحظہ فرمائیے:(1)سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اولاً کھجور کے ایک خشک تنےسے ٹیک لگاکرخطبہ ارشاد فرماتے تھے۔جب لکڑی کا منبر تیار کیا گیا تو فراق ِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سبب لکڑی کا وہ تنا گِریہ و زاری کرنے لگا ۔رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اس کو تسلی دیتے ہوئے سینے سے لگا لیا جس سے اس کی سسکیاں بند ہوگئیں۔ (بخاری، ج2،ص18، حدیث:2095) (2)جب ایک چڑیا اپنے انڈوں کے گم ہوجانے کے غم میں آپ علیہ السَّلام کواپنا مَلْجَا (مددگار) جان کر آپ کے پاس آکر پھڑپھڑانے لگی تو آپ نے اس کے انڈے واپس کروا دئیے۔(سبل الہدی والرشاد،ج7،ص28) (3) فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ اسے طویل کرنے کا ہوتا ہے لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتاہوں تو میں اس کے بارے میں اس کی ماں کی فکر مندی کے خیال سے نماز کو مختصر کردیتا ہوں۔(مسلم، ص 194، حدیث: 1056) اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی نرم دلی کی نعمت عطافرئے، اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم(شاہ زیب عطاری ،دورۂ حدیث شریف مرکزی جامعۃ المدینہ،فیضانِ مدینہ، باب المدینہ کراچی)
وقت کیسے ضائع ہوتاہے؟
وقت اللہ تعالٰیکی عظیم نعمت ہےمگر کچھ امور ایسے ہیں جن پر توجہ نہ دینے کی بنا پر ہم یہ عظیم نعمت ضائع کر بیٹھتے ہیں۔آئیے یہ جانتے ہیں کہ وہ امور کون سے ہیں:(1)نظام الاوقات نہ بنانا:جب بہت سے کام کرنےہوں لیکن نظامُ الاوقات (Time Table) نہ بنایا ہو تو ہر کام کرتے وقت دوسرے کاموں میں بھی ذہن اٹکا رہے گااور دِلْجمعی سے کوئی کام نہیں ہو پائے گا،نیز کبھی ہم ایک ہی کام پر بہت زیادہ وقت لگا دیں گے اور باقی کام رہ جائیں گے۔(2)ترجیحات (Priorities)کا تعیُّن نہ ہونا:اگر نظام ُالاوقات تو بن جائے لیکن یہ لحاظ نہ رکھا جائے کہ کون سا کام زیادہ اہم ہے اور کون سا کم، کس کام کو پہلے کرنا چاہئے کس کو بعد میں نیز کس کام کو کتنا وقت دینا ہےتو بھی وقت ضائع ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ (3)دوسروں کے تجربات سے نہ سیکھنا:دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کے بجائے نئے سرے سے تجربات کرنا بھی ضیاعِ وقت کا ایک سبب ہے۔ (4)ہر کام خود کرنے کی کوشش کرنا: کاموں کو تقسیم(Distribute) کرنے سے کم وقت میں زیادہ کام ہو جاتا ہے جبکہ ہر کام خود کرنے کی کوشش میں کوئی بھی کام اچھے انداز میں نہیں ہو پاتا اور وقت ضائع ہوتا ہے۔ (5)فضول مشاغل اختیار کرنا: فضول کاموں(موبائل گیمز، انٹرنیٹ چیٹنگ، سوشل میڈیا کا بے جا استعمال) یا بےفائدہ بحث و گپ شپ کی عادت سے بھی کثیر وقت ضائع ہوتا ہے۔(6)کل کر لوں گا کی عادت: آج کا کام کل پر ڈالنے کی سوچ بھی وقت ضائع ہونے کا اہم سبب ہے جس کے سبب بہت سے کام وقت پر نہیں ہوتے۔اللہ تعالٰیہمیں وقت کی قدر نصیب فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم(محمد ایوب عطاری دورۂ حدیث شریف،مرکزی جامعۃالمدینہ، فیضانِ مدینہ، باب المدینہ کراچی)
Comments