فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي“ یعنی میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اوراللہ ہی عطا فرماتا ہے۔(بخاری،ج1،ص42،حدیث:71)
اس حدیثِ مبارکہ میں اس بات کی صراحت نہیں کہ سرورِدوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا عطا فرمانے والے ہیں، اس صورت میں اصول کے مطابق معنیٰ یہ ہوگا کہ ہر نعمت کو تقسیم کرنے والے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے واسطے کے بغیر کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔
فقیہِ اعظم ہند حضرت علّامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:مخلوق میں کسی کو حضورِاقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بِلا واسطہ کچھ نہیں مل سکتا ۔ بخاری وغیرہ میں صحیح حدیث ہے کہ فرمایا :”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي“۔قَاسِمٌ اور يُعْطِي دونوں کا متعلّق محذوف ہے جو عموم کا اِفادہ کرتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ مخلوقات میں جس کو جو کچھ بھی دیتا ہے خواہ وہ نعمت جسمانی ہو یا روحانی ، ظاہری ہو یا باطنی سب حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ سے دلاتا ہے۔اس لئے علامہ احمد خطیب قسطلانی شارح بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے ”اَلْمَوَاھِبُ اللَّدُنیہ“ میں فرمایا، جسے علامہ محمد بن عَبدُالباقی زُرقانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے باقی رکھا: ھُوَصَلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خِزَانَۃُ السِّرِّ وَمَوْضِعُ نُفُوْذِالْاَمْرِ فَلَا یَنْقُلُ خَیْرٌاِلَّا عَنْہُ وَلَا یَنْفُذُ اَمْرٌ اِلَّا مِنْہُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔یعنی حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خزانۃ السر (یعنی پوشیدہ راز) ہیں اور اللہ تعالٰی کے حکم کے نافذ ہونے کا مرکز ، اس لئے ہر چیز حضور ہی سے منتقل ہوتی ہے اور ہر حکم حضور ہی سے نافذ ہوتا ہے۔(فتاویٰ شارح بخاری،ج1،ص351)
حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ دین ودنیا کی ساری نعمتیں علم، ایمان، مال، اولاد وغیرہ دیتا اللہ ہے بانٹتے حضور ہیں جسے جو مِلا حضور کے ہاتھوں مِلا کیونکہ یہاں نہاللہکی دَین(یعنی دینے) میں کوئی قید ہے نہ حضور کی تقسیم میں، لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ آپ صرف علم بانٹتے ہیں ورنہ پھر لازم آئے گا کہ خدا بھی صرف علم ہی دیتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج1،ص177)
بعض علما نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تقسیم میں فقط عِلم کا ذکر کیا ہے لیکن یہ تقسیم صرف عِلم کے ساتھ خاص نہیں،کثیر ائمہ نے اس تقسیم کو عام رکھا ہے کہ علم ہو یا مال ہر نعمت حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی تقسیم فرماتے ہیں ۔
پانچویں صدی ہجری کے بزرگ،شارحِ بخاری امام ابن بطّال مالکیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتےہیں:حضور علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام کا یہ فرمان ”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ“ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام اپنے پاس کوئی مال نہیں رکھتے تھے بلکہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان میں تقسیم فرما دیتےاورآپ علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام کا یہ فرمان لوگوں کی دل جوئی کے لئے تھا کہ کسی کو کم زیادہ مل رہا ہے تو یہ اللہ تعالٰی کی عطا ہے جس کو میں زیادہ دے رہا ہوں تو وہ بھی اللہ تعالٰی کے مقرر کرنے کی وجہ سے اور کسی کو اس کے مقابلے میں کم دے رہا ہوں تو یہ بھی اللہ تعالٰی کے مقرر کرنے کی وجہ سے۔(شرح ابن بطال علی صحیح البخاری،ج1،ص141ملخصاً)
دسویں صدی ہجری میں وصال فرمانے والے عظیم مُحدّث، حافظ ابنِ حجر ہیتمی مکیعلیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: حضورِاقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ تعالٰی کے خلیفۂ اعظم ہیں،اللہ تعالٰی نے اپنے کرم کے خزانے اور نعمتوں کے دسترخوان حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے ہاتھوں میں دے دیئے ہیں حضور جسے جو چاہیں عطا فرمادیں۔(الجوهر المنظم، ص 80)
مزید تفصیل کے لئے امامِ اَہلِ سُنّت، اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کی تصنیف” اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی (فتاویٰ رضویہ،ج30،ص359)“ اور ”تَجَلِّیُ الْیَقِیْنُ (فتاویٰ رضویہ،ج 30،ص129)“ کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔
Comments