اللہ کے آخری نبی، محمدِ عربی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّ الرِّزْقَ لَیَطْلُبُ الْعَبْدَ کَمَا یَطْلُبُہٗ اَجَلُہ، ترجمہ: بندے کو رِزْق ایسے تلاش کرتا ہے جیسے بندے کی موت اس کو تلاش کرتی ہے۔( مسند البزار،ج10، ص37،حدیث:4099)
رزق اور موت کی تلاش میں فرق: حضرت علّامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: رزق کی تلاش موت کی تلاش سے زیادہ قَوی(یعنی مضبوط) ہے کیونکہ موت پوری ر وزی کھالینے کے بعد آتی ہے مگر رزق ہر وقت آتا رہتا ہے، ربِّ کریم فرماتاہے: اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہیں روزی دی ، پھر تمہیں مارے گا، پھر تمہیں جِلائے(یعنی زندہ فرمائے) گا۔(ایک اور روایت میں ہے ) انسان اگر موت کی طرح رزق سے بھی بھاگے، جب بھی رزق اُسے ضرور مل کر ہی رہے گا ، جیسا کہ موت یقینی طور پر آکر ہی رہتی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،ج9،ص173،تحت الحدیث:5312 ملتقطاً)
میانہ روی اِختیار کیجئے: علّامہ عبد الرء وف مناوی علیہ رحمۃ اللہ الکافی اَلتَّیْسِیْر شَرْح جَامِع صَغِیر میں فرماتے ہیں: رزق کے لئے(ہر وقت ) اِہتمام میں لگے رہنے اور اس کی زیادتی کی جستجو میں لگے رہنے کا نتیجہ صرف و صرف دلوں کا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی جناب سے غافل ہونا ہی ہے ۔ لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ سےڈرو اور رزق کی طلب میں میانہ روی اختیار کرو۔(التیسیر بشرح الجامع الصغیر ،ج1،ص285)
موت کی تلاش منع ہے: حکیم الامّت مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃ الرَّحمٰنفرماتے ہیں: مقصد یہ ہے کہ موت کو تم تلاش کرو یا نہ کرو بہرحال تمہیں پہنچے گی، یوں ہی تم رزق تلاش کرو یا نہ کرو ضرور پہنچے گا، ہاں رزق کی تلاش سنّت ہے موت کی تلاش ممنوع، مگر ہیں دونوں یقینی۔برادرانِ یوسف علیہ السَّلام رزق کی تلاش میں مِصر گئے، گمُے ہوئے یوسف( علیہ السَّلام ) کو پالیا۔( مراۃ المناجیح ،ج7،ص 126)
رزق کی کمی اورمعاشی بدحالی کی ایک وجہ: عمومی طور پر انسان رزق کی تلاش میں ایسا مگن رہتا ہے کہ موت اور آخِرت کی فکر سے یکسر غافل ہوجاتا ہے۔ مال کمانے کی دُھن بھی ایسی سوار ہوتی ہے کہ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر بس مال جمع کرنے میں مشغول رہتا ہےاوراپنے خالق و مالک اور رازِق (یعنی رِزق دینے والے) کو گویابھول ہی جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اتنی محنت و کوشش کے باوجود مَعاشی بدحالی سب کے سامنے ہے کہ آج تقریبا ً ہر کوئی رزق کی کمی، مہنگائی، بیماری اور ”پوری نہیں پڑتی“ کا رونا رو رہا ہے۔ اے کاش! مسلمان رِزْق حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ احکامِ الٰہی کا بھی خیال رکھتے تو آج ان کا حال اس سے بہت مختلف ہوتا۔ عبرت کی نگاہ سے اس حدیث کو پڑھئے:
دنیا کی فکر محتاجی لاتی ہے:تاجدارِ رسالت، ماہِ نبوَّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے آخِرت کی فکر ہو اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے، اس کے بکھرے ہوئے کاموں کو جمع کر دیتا ہے اور دنیااس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جسے دنیا کی فکر ہو، اللہ تعالیٰ محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے، اس کے جمع شدہ کاموں کو مُنْتَشر کر دیتا ہےحالانکہ دنیا سے (مال) بھی اسے اتنا ہی ملےگا جتنا اس کیلئے مقدر ہے۔( ترمذی،ج4،ص211، حدیث:2473)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے ”جو ہمارے نصیب میں ہے وہ چل کر آئے گا اور جو نصیب میں نہیں وہ آ کر بھی چلاجائے گا۔“
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دار الافتاء اہلِ سنّت،اقصیٰ مسجد، باب المدینہ کراچی
Comments