مُجرِم بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے گواہ
پھر رَد ہو کب یہ شان کریموں کے دَر کی ہے
الفاظ و معانیمجرم:گناہ گار۔جَآءُوْكَ:تمہارے پاس آئیں۔ رد:مُسْتَرَد(Reject)۔شرحہم گناہ گار اُمّتی اللہ کریم کے فرمانِ عالیشان ’’جَآءُوْكَ “پر عمل کرتے ہوئے اپنے کریم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دربار میں حاضر ہوئے ہیں اور یہ ایسا دربار ہے جہاں کسی سُوالی کا سُوال رَد نہیں کیا جاتا لہٰذا ہمیں اُمّید ہے کہ اس بارگاہ سے ہمیں مغفِرت کا پروانہ ضَرور حاصِل ہوگا۔
مذکورہ بالاشعر میں جَآءُوْكَ سے اس آیتِ مبارکہ کی طرف اشارہ ہے:(وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴))
ترجمۂ کنزُ الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (پ5، النسآء:64)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) حکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن اس آیتِ مُقدّسہ کے تحت فرماتے ہیں:اس آیت میں توبہ قبول ہونے کی تین شرطیں بیان ہوئیں:اولاً حضور علیہِ السَّلام کی بارگاہ میں حاضری، دوسرے اپنے گُناہ سےوہاں جا کر توبہ کرنا، تیسرے حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا شفاعت فرمانا، اگر ان تینوں باتوں میں سے ایک بھی نہ پائی جائے تو قبولِ توبہ کی اُمّید نہیں۔(شانِ حبیب الرحمٰن، ص42ملخصاً)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و اِستِغفار کریں۔اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمْع (یعنی سننا)، اس کا شُھُود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ حضور کے عالَمِ حیاتِ ظاہری میں حُضُور (یعنی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی بارگاہ میں حاضر ہونا)ظاہر تھا،اب حضورِمزارِ پُراَنوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُرنور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی طرف توجّہ، حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے تَوَسُّل، فریاد، اِستِغاثہ، طلبِ شفاعت (کی جائے)۔ (فتاوی رضویہ،ج15،ص654)
حکایتحضورسیّدالمرسلین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وِصالِ ظاہِری کے بعد ایک اَعْرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوئے، قبرِ انور کی مبارک مٹّی اپنے سر پر ڈالی اور عرض کی: یارسولَ اللہ! آپ نے جو ارشاد فرمایا وہ ہم نے سنا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جو نازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے: (وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ۔۔الآیۃ)بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اللہ کریم سے اپنے گُناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب سے میرے گناہ بخشوائیے۔ جب اعرابی نے یہ عَرْض پیش کی تو قبرِانور سے نِدا (یعنی آواز) آئی: قَدغُفِرَ لَك یعنی تمہیں بخش دیا گیا۔(تفسیرِ نسفی، النساء ،تحت الآیۃ: 64،ص236)
میں کرکے سِتَم اپنی جاں پر، قراٰن میں جَآءُوْكَ پڑھ کر
آیا ہوں بہت شرمندہ سا، سرکار توجُّہ فرمائیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ،باب المدینہ کراچی
Comments