بچّو! ان سے بچو/  شیر اور لومڑی/ شب براءت اور پٹاخے/ مدنی منّوں کی کاوِشیں

صدیوں پُرانی بات ہے، ایک کافِر بادشاہ جس کا نام شَدّاد تھا ،دنیا پر حکومت کرتا تھا۔ جب اُس نے مختلف انبیائے کِرام علیہم السلام کی زبانی جنّت اور اُس کی عظیم خوبیوں کا ذِکْر سنا تو سَرکشی کرتے ہوئے دنیا ہی میں ایک جنّت بنانے کی ٹھان لی۔

شَدّاد کی جنّت کا منظر چنانچہ اُس نے ایک بہت بڑا شہر بنوایا جس کے ٭محلّات سونے چاندی کی اینٹوں سے بنے تھے ٭اُن کے سُتون (Pillars) زَبَرجَد (سبز رنگ کا زردی مائل قیمتی پتھر) اور یاقُوت (سرخ، سفید، زرد یا نیلے رنگ کےقیمتی پتھر)کے تھے ٭مکانوں اور راستوں کے فرش بھی جواہِرات کے تھے ٭فرش پر کنکروں کی بجائے نفیس موتی بچھائے گئے تھے ٭جگہ جگہ جواہِرات بچھا کر اُن پر نہریں جاری کی گئی تھیں ٭طرح طرح کے درخت سائے اور زینت کی غرض سے لگائے گئے تھے۔ الغَرَض 300 سال کی محنت سے ہر طرح کا عیش و عِشرت کا سامان اس شہر میں جمْع کردیا گیا۔

 شَدّاد کی ہلاکت جب تعمیراتی کام(Construction Work) مکمل ہوا تو شَدّاد اپنی سلطنت کے وزیروں کے ساتھ اپنی بنوائی ہوئی جنّت کی جانب چلا، ابھی ایک دن رات کا سفر باقی تھا کہ آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی اور شَدّاد 900 سال  کی عمر پاکر ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا۔

یہ شہر کس نے دیکھا؟ صحابیٔ رسول حضرتِ سیّدنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ایک بُزرگ حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن قِلابہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک اونٹ یَمَن کے قریبی شہر عَدَن کے صَحْرا میں گم ہوگیا، آپ رضی اللہ تعالی عنہ صَحرا میں اونٹ  تلاش  کر رہے تھے کہ اس دوران شَدّاد کی جنّت میں جا پہنچے، وہاں کی زَیب و زینت دیکھی، کوئی شخص بھی وہاں موجود نہیں تھا، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہاں سے تھوڑے سے جواہِرات ساتھ لئے اور چلے آئے، اس بات کی خبر حضرتِ سیّدنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہوئی تو انہوں نے آپ کو بُلا کر معاملہ پوچھا، سارا قصّہ سننے کے بعد آپ حضرتِ سیّدنا  کَعْبُ الاَحبار رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور پوچھا: کیا دنیا میں اِس اِس طرح کا بھی کوئی شہر موجود ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: ہاں! اِس کے بعد اُنہوں نے شَدّاد کا سارا قصّہ بیان کیا اور کہا: آپ کے زمانے میں ایک مسلمان شخص اپنا اونٹ تلاش کرتے کرتے اِس شہر میں داخل ہوگا، اُس شخص کا رنگ سُرخ، آنکھیں نیلی، قد چھوٹا جبکہ بَھنووں پر ایک تِل ہوگا۔ بعد میں جب آپ نے حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن قِلابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا تو فرمایا: اللہ پاک کی قسم! یہ وہی شخص ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص222-223مفہوماً، صراط الجنان،ج10،ص663-664مفہوماً ، خازن،ج4،ص376)

حکایت سے حاصل ہونے والے مدنی پھول

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! ٭اللہ پاک کو بندوں کی نافرمانی  اور غُرور سخْت ناپسند ہے ٭شدّاد اپنی نافرمانی کی وجہ سے عذابِِ الٰہی کا شکار ہوا ٭ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک سے ڈرتے ہوئےعاجِزی اختیار کریں ٭ہر اس کام سے بچیں جس سے اللہ پاک اور رسولِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی نافرمانی ہوتی ہو، اِسی میں  ہمارے ’’روشن مستقبل‘‘ (Bright Future) کی ضمانت ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ ذمہ دار شعبہ فیضانِ امیرِ اہلِ سنّت،المدینۃ العلمیہ،باب المدینہ کراچی


Share

بچّو! ان سے بچو/  شیر اور لومڑی/ شب براءت اور پٹاخے/ مدنی منّوں کی کاوِشیں

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنِّیو! ہمارے گھر والے ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں ، اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ کبھی کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے انہیں پریشانی ہو جیسا کہ خطرناک کھیل کھیلنا طرح طرح کے کھیل کھیلنا کس بچّے کو پسند نہیں ہوتا! بچّے تو کھیل کے دیوانے ہوتے ہیں۔ لیکن پیارے بچّو! ہر کھیل اچھا نہیں ہوتا، کچھ کھیل بہت خطرناک(Dangerous) ہوتے ہیں جن سے ہمیں بہت نقصان ہوسکتا ہے، جیسے دیوار پر چڑھنا، پائپ سے لٹکناایسے کھیل کھیلتے ہوئے اگر ہمارا ہاتھ پِھسلا تو نیچے گرنے سے ہمارے سَرمیں خطرناک چوٹ لگ سکتی ہے، ہاتھ پاؤں ٹُوٹ سکتے ہیں اور اللہ نہ کرے پوری زندگی کے لئے معذور ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کھیلوں سے دور ہی رہنا اچّھا ہے۔ پانی میں کھیلنا پانی میں کھیلنےسے بھی نقصان ممکن ہے۔اس سے ہم بیمار ہوسکتے ہیں، کان میں پانی جانے سے کان خراب ہوسکتے ہیں، پانی میں پاؤں پھسل کرہم گرسکتے ہیں اور چوٹ لگ سکتی ہے۔ آگ اور بجلی کے پاس جانا ہمیں چاہئےکہ بجلی کے تاروں سے دُور رہیں، جلتے ہوئے چُولھے اور ہِیٹر کے قریب نہ جائیں ، ماچس اور آگ (Fire) سے تو بالکل نہ کھیلیں کیونکہ  یہ ہمیں جلا بھی سکتی ہے لہٰذا ایسی خطرناک چیزوں سے دور ہی رہنا چاہئے۔اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

بچّو! ان سے بچو/  شیر اور لومڑی/ شب براءت اور پٹاخے/ مدنی منّوں کی کاوِشیں

ایک شیر(Lion) بوڑھا ہو گیااور اسے شکار پکڑنے میں مشکل ہونے لگی تو ایک دن اُس نے سو چا کوئی ایسی چالاکی کرنی چاہئے جس سے  روزانہ شِکار آسانی سے مِل سکے۔آخر کار اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور وہ بیمار بَن کر غار میں بیٹھ گیا تاکہ جو جانور بھی اس کی طبیعت پوچھنے آئے تو اُس جانور کوکھا جائے اور اِسے بیٹھے بِٹھائے شِکار مِل جائے۔ جب جانور وں کو شیر کی بیماری کا پتا چلا تو وہ طبیعت پوچھنے آنے لگے۔ جو جانور بھی غار کےاندر جاتا  وہ واپس نہ آتا کیوں کہ  شیر اُسے کھا جاتا تھا۔ ایک دن ایک لومڑی (Fox) آئی اور غار کے باہر ہی کھڑے ہو کر پوچھنے لگی:حضور!آپ کی  طبیعت کیسی ہے؟ شیر  نے لومڑی سےکہا: باہر کیوں کھڑی ہو؟ اندر آجاؤ۔ لومڑی  بولی: حضور ! میں اندر اس لئے نہیں آرہی کہ میں نے یہاں جتنے بھی جانوروں کےپاؤں کے نشان دیکھے ہیں،وہ نشان اندر جانے کے ہیں باہر آنے کا ایک بھی نشان نہیں، تو میں باہر ہی اچّھی ہوں،آپ کی طبیعت  پوچھ کر یِہیں سے واپس چلی جاؤں گی۔(مثنوی کی حکایات، ص301)

      پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَ نی مُنّیو!دیکھا آپ نے! اُس لومڑی نے کس طرح ہوشیاری سے کام لیا کہ غار کے اندر جانے کے انجام پر غور کیااور شیر کا شِکار بننے سے بھی بچ گئی، بعض اوقات ہم طرح طرح کے بُرے کاموں (جیسے والدین کی نافرمانی، بڑوں کی بےادبی، پڑھائی میں سُستی ، وقت ضائع کرنے وغیرہ ) میں لگ جاتے ہیں اور ان کے انجام اور ان پر ملنے والی سزاؤں پر غور نہیں کرتے،اس لئےہمیں  بھی چاہئے کہ ہم ہر بُرے کام کےانجام اور اُس کی سزا کو ذہن میں رکھیں اور اُس سے بچیں تاکہ دُنیا و آخِرت  میں شیطان کا شِکار بننے سے بچ سکیں۔

اللہ پاک ہمیں بُرے کاموں سے بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ ماہنامہ فیضان مدینہ،باب المدینہ کراچی


Share

بچّو! ان سے بچو/  شیر اور لومڑی/ شب براءت اور پٹاخے/ مدنی منّوں کی کاوِشیں

ٹَن !ٹَن !ٹَن چُھٹی کی بیل بجی تو10 سالہ کاشان نےاپنی کتابیں بیگ میں رکھیں اور اسکول سے باہر نکل کر گھر کی طرف چل پڑا ۔ اس کا گھر اسکول سے کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔ گھر پہنچ کر اس نے امّی کو سلام کیا اور ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے کے لئے دستر خوان پر بیٹھ گیا ، پھر مسجد میں جاکر نَماز پڑھی اور واپس آکر سو گیا۔ شام 4 بجے اٹھا تو دیکھاکہ امّی کپڑوں پر اِستری کر رہی ہیں، کاشان نے پوچھا: امّی کیا آج کسی دعوت میں جانا ہے؟ جو آپ سب کے کپڑوں پر استری کر رہی ہیں! امّی نے کہا:آج دعوت نہیں،شب براءَت یعنی دوزخ سے چھٹکارے کی رات ہے، یہ سُن کر کاشان کھیلنے چلا گیا۔ کھیل کے دوران اس کے دوستوں نے آج رات خوب پٹاخے خریدنے اور پھاڑنے کا پرگرام بنا یا ،گھر آکر کاشان نے بھی امّی سے پٹاخے خریدنے کیلئے 200 روپے مانگے توامّی نے کہا: بیٹا! پٹاخے پھاڑنا بہت بُری بات ہے،جو بچّے پٹاخے اور بم پھاڑتے ہیں گندے بچّے ہوتے ہیں اور آپ تواچّھے بچّے ہیں، کاشان نے کہا:امّی! آج توسبھی بچّے پُھل جَھڑِیاں اور پٹاخے خریدتے ہیں ،پھر آپ مجھے کیوں منع کررہی ہیں؟ امّی نے کہا: اس لئے کہ آج کی رات پٹاخے پھوڑنے کی رات نہیں بلکہاللہ پاک کی خوب عبادت کرنے کی رات ہے، اس رات عبادت کرنے پر ثواب بھی زیادہ ملتا ہے، لوگ گھروں اور مسجدوں میں نوافل پڑھتے ہیں، تلاوتِ قراٰن اور اللہ پاک کا ذکر کرتے ہیں، پیارے نبی صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پر خوب دُرود و سلام بھیجتے ہیں اور اس کا ثواب اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو پہنچاتے ہیں، اس رات قبر ستان جانا پیارے نبی صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی سنت بھی ہے، (مراٰۃ المناجیح،ج2،ص290) کاشان نے کہا: اچّھی امّی! صرف 50 روپے دے دیں تاکہ تھوڑے سے پٹاخے خرید لوں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ مسجد میں جاکر نَماز بھی پڑھوں گا اور ابو کے ساتھ قبرستان بھی جاؤں گا۔ امّی نے کہا: بیٹا! بات تھوڑے یا زیادہ پیسوں کی نہیں ہے!ہمیں ہر حال میں اللہ پاک کی نافرمانی سے بچنا چاہئے، پٹاخے اور بم پھاڑنے کی آواز سے خوب شور شرابا ہوتا ہے جس کی وجہ سے دوسروں کو بہت زیادہ تکلیف اور پریشانی ہوتی ہےاور عبادت میں دل نہیں لگتا ،کبھی اس کی چنگاری سے کپڑوں یا سامان میں آگ بھی لگ جاتی ہے۔ کاشان نے پوچھا: امّی! اگر پٹاخا پھاڑنا بُری بات ہے تو دوسرے بچّے ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ان کے امّی ابو انہیں منع کیوں نہیں کرتے؟ امّی نے کہا: سمجھدار والدین اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں اور اچّھے بچّے ان کی بات بھی مان لیتے ہیں اور پٹاخے خریدنے کی ضد بھی نہیں کرتے، امّی کی باتوں کو کاشان نے غور سے سنااور نئے کپڑے پہن کر مسجدمیں آ گیا۔ نَمازِمغرب کے بعد کاشان نے زبیر کے ہاتھ میں مختلف قسم کے پٹاخے اور پُھل جَھڑِیاں دیکھیں،  کاشان نے اسے پٹاخے پھاڑنے سے منع کیا لیکن اس نے کاشان کی بات پر توجّہ نہ دی اور گلی کے لڑکوں کے ساتھ مل کر پٹاخے پھاڑنے لگا، بچوں کے شور شرابے اور پٹاخے پھٹنے کی آوازوں سے پوری گلی گونج رہی تھی، اسی دوران زبیر نے ایک پٹاخے کےفیتے میں آگ جلائی مگر دور پھینکنے سے پہلے ہی وہ اس کے ہاتھ میں پھٹ گیا جس سے اس کی زوردار چیخ نکل گئی، اس کا ہاتھ بُری طرح جل چکاتھا، کاشان نےفوراً زبیر کے گھرجاکر بتایا تو اس کے ابو بھاگے بھاگے آئے اور اسےاسپتال لے گئے، کاشان کو جہاں زبیر کا ہاتھ جل جانے کا افسوس تھا وہیں یہ بات اس کی سمجھ میں اچّھی طرح آچکی تھی کہ یہ رات کھیل کود، پٹاخے پھاڑنے اور آتش بازی کرنے کی نہیں ، بلکہ اللہ کریم سے عافِیّت مانگنے کی رات ہے، دوزخ سے آزادی کی رات ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ ماہنامہ فیضان مدینہ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code