حضور رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نواسیوں میں ایک سعادت مند نواسی حضرت سیدتنا اُمامَہ بنتِ ابوالعاص رضی اللہ تعالٰی عنہما ہیں، آپ نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے بڑی اور لاڈْلی نواسی تھیں۔
مقام ومرتبہ آپ کی فضیلت کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ آپ کی والدہ سیّدتنا زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا اور والدحضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ تعالٰی عنہ ، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی نانی اُمُّ المؤمنین سیّدتنا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور نانا امام الانبیاء حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔
رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ان سے مَحبّت کا عالم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے چنانچہ حضرت ِسیّدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے تو آپ (اپنی نواسی) اُمامہ بنتِ ابوالعاص کو اپنے مبارَک کندھے پر اُٹھائے ہوئے تھے ۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اُٹھا لیتے۔(بخاری،ج4،ص100، حدیث:5996)
شارِحِ بُخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القَویاس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : چھوٹے بچّے کو گود میں لے کر نَماز پڑھنے کے بارے میں(بعض لوگوں کا) یِہی خیال ہے کہ نَماز نہیں ہوگی،اس واہِمے (یعنی گمان، خیال) کو ختم کرنے کے لئے امام بُخاری( علیہ رحمۃ اللہ البارِی ) نے یہ باب باندھا اور یہ حدیث ذِکر فرمائی۔ اگر چھوٹے بچّے کا جسم اور کپڑے پاک ہوں اور اُتارنے اور گودمیں لینے میں’’ عملِ کثیر‘‘ ([1]) نہ ہوتا ہو تو چھوٹے بچے کو گود میں لے کر نماز پڑھنے میں کوئی حَرَج نہیں۔(نزہۃ القاری،ج2،ص198)
شفقت کےدوایمان افروز واقعات (1) ایک دفعہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک بہت ہی خوبصورت ہار پیش کیا گیا، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں اِس ہار کو اپنے خاندان میں جس سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں اس کی گردن میں پہناؤں گا، خواتین نے کہا کہ سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ ہار حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو عنایت فرمائیں گے لیکن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سیّدتنا اُمامہ بنت ابو العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما کو بُلوایا اور وہ ہار اپنے ہاتھ سے ان کو پہنادیا۔(مسند ابی یعلی،ج4،ص86، حدیث:4454) (2) ایک مرتبہ حَبشہ کے بادشاہ نجاشی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بطورِ ہدِیّہ ایک جوڑا بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی،حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ انگوٹھی حضرت اُمامہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو عطا فرمائی۔(شرح الزرقانی علی المواھب،ج4،321ملخصاً)
شیرِِ خُداسے نکاح سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے انتقال کے بعد حضرت سیّدناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم نے حضرت فاطمہ کی وصِیّت کے مطابق حضرت اُمامہ بنت ابوالعاص (رضی اللہ تعالٰی عنہا) سے نکاح کر لیا۔ (مدارج النبوۃ،ج2،ص325)آپ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے ایک فرزند کا نام محمد اَلاَوسَط تھا۔(صفۃ الصفوۃ،ج1،163)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… شعبہ بیانات دعوتِ اسلامی،المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی
[1] ۔۔۔عمل کثیر کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لئےشیخ طریقت امیر اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب نماز کے احکام کا صفحہ نمبر242پڑھئے۔
Comments