دارالافتاء اہلِ سنّت (دعوتِ اسلامی) مسلمانوں کی شرعی رہنمائی میں مصروفِ عمل ہے، تحریراً، زبانی،فون اور دیگر ذرائع سے ملک بیرونِ ملک سے ہزارہا مسلمان شرعی مسائل دریافت کرتےہیں،جن میں سے چار منتخب فتاویٰ ذیل میں درج کئے جارہے ہیں۔
نبی یا نَبِیَّہ نام رکھنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نبی یا نَبیَّہ نام رکھنا اور اس نام سے پکارنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی نام رکھنا اور اس نام سے پکارنا شرعاً حرام ہے اور یہی حکم نَبیَّہ نام رکھنے کا ہے۔ اس حکم کی تفصیل یہ ہے کہ کسی غیرِ نبی کو نبی ماننا اگرچہ کفر ہے، مگر یہاں حکمِ کفر تو اس وجہ سے نہیں کیونکہ نادان مسلمان اس بچے کو ہر گز نبی یا نَبیَّہ نہیں مانتے بلکہ محض اپنی جہالت و حَماقَت سے یہ نام رکھ لیتے ہیں، البتہ چونکہ یہ لفظ ظاہری طور پر اس کے نبی ہونے کا گویا دعویٰ کرنا ہے اس لئے یہ نام رکھنا ناجائز و حرام ضرور ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیب محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی |
مُصَدِّق محمد ہاشم خان العطاری المدنی |
ادارے کے کاموں کے لئے ملنے والا پٹرول
ذاتی کاموں میں استعمال کرنا کیسا؟
سوال:کیافرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک پرائیویٹ ادارے کے تحت کچھ ملازم مارکیٹنگ کرتے ہیں، ملازمین کو رُوٹ کے حساب سے روزانہ گاڑی کے لئے پٹرول دیا جاتا ہے اورانہیں اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ اگر پٹرول بچ جائے تو ادارے کو واپس کرنا ہے تاکہ اسے اگلے دن کے لئے استعمال کیا جا سکے،کسی کو بھی ذاتی طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ،پوچھنا یہ ہے کہ اگرپٹرول بچ جائے تو ملاز م اسے ذاتی طور پر استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں،براہِ کر م جو بھی حکم شرعی ہو اس سے آگاہ فرمائیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں ملازمین کو بچا ہوا پٹرول استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ،اگر کریں گے تو گنہگار ہوں گے ،کیونکہ ملازمین کے پاس جو پٹرول بچ جائے ،اس کی شرعی حیثیت امانت جیسی ہے اور امانت میں خیانت جائز نہیں اور خیانت دھوکہ دہی اور باطل طریقے سے مسلمانوں کا مال کھانے کے زُمْرے میں آتی ہے جس کی حُرْمت قرآن و حدیث میں صَراحت سے موجود ہے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
ابوالصالح محمد قاسم القادری
دورانِ طواف یادداشت کے لئے دَھات کا چھلّا پہننا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ طواف کے لئے ایک قسم کی دھات کا چھلّا ملتا ہے جس کے ساتھ دانوں والی تسبیح لٹک رہی ہوتی ہے اسے یادداشت کے لئے انگلی میں ڈالتے ہیں اور پھر ہر چکّر پر ایک دانہ شمارکرتے جاتے ہیں۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس طرح کا چھلّا انگلی میں ڈالنا شرعا جائزہے یانہیں؟ اور جو چھلّا پہننا گناہ ہےیہ اس میں شمار ہوگا یا نہیں ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
تانبا اور پیتل میں صرف تَحَلّی (یعنی زیورکے طور پر پہننا) حرام ہے اور تَحَلّی زیور کے ساتھ ہوتی ہے اور زیور وہ چیز ہوتی ہے جس سے زینت حاصل کی جاتی ہے اور تسبیحات وغیرہ کو پکڑنے کے لئے جوچھلّا ان کے ساتھ لگا ہوتا ہے یہ زیور کی طرز پر نہیں بنا ہوتا اور اس طرح کا نہیں ہوتا کہ اس سے زینت حاصل کی جائے اور اس کو انگلی میں زیور اور زینت کے طور پر ڈالا بھی نہیں جاتا بس حفاظت کے لئے انگلی میں اَٹکا لیا جاتا ہے۔ پس اسے حفاظت کے لئے انگلی میں اَٹکا لینا جائز ہے ۔
جُزئیات سے ثابت ہے کہ زیور وہ ہے جس سے تَزَیُّن (یعنی زیب و زینت اختیار کرنا) مقصود ہوتا ہے اور تسبیحات وغیرہ اَشیاء کے ساتھ جو چھلّا ہوتا ہے اس سے تَزَیُّن مقصود نہیں ہوتا لہٰذا یہ زیور میں شمار نہیں ہوگا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیب محمدعرفان مدنی |
مُصَدِّق محمد ہاشم خان العطاری المدنی |
امام کا لمبی قراءَت کرنا اور مقتدیوں کا اس پر باتیں کرنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز میں امام کا لمبی قِراءَت کرنا اور مُقتدیوں کا لمبی قراءَت کرنے پر باتیں کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فرض نمازوں میں قراءَت کے معاملے میں امام کے لئے سنّت یہ ہے کہ اگر مُقیم ہونے کی حالت میں نماز کا وقت تنگ نہ ہو اور جماعت میں بوڑھا، بیمار، ضعیف اور ضروری کام والاکوئی فرد موجود نہ ہو تو فجر اور ظہر کی نماز میں طِوالِ مُفَصَّل ( یعنی سورۂ حُجُرَات سے سورۂ بُرُوج تک)، عصر اور عشاء میں اَوْساطِ مُفَصَّل (یعنی سورۂ بُرُوْج سے لے کر سورہ ٔبَیِّنَہ تک) اور مغرب میں قِصارِ مُفَصَّل( یعنی سورۂ بَیِّنَہ سے سورۂ ناس تک )پڑھے۔
یا پھر فجر اور ظہر کی دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے علاوہ 40 سے 50 آیات تک، عصر اور عشاء میں 15 سے 20 آیات تک اور مغرب میں 10 آیات تک پڑھے۔
اور اگر نماز میں بوڑھا، ضعیف، بیمار اور ضروری کام والا کوئی فرد موجود ہو تو ان کی رعایت کرتے ہوئے قراءت میں تخفیف(یعنی کمی) کرے۔
اور اس سے ہَٹ کر امام کاقراءَت کرنا بُرا ا ور خلافِ سنت ہے اور اگر نمازیوں میں کوئی بوڑھا یا مریض یا ضروری کام والا ہے جس پر طویل قراءَت گِراں( یعنی دشوار) گزرتی ہو تو یہ ناجائز و حرام ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ(یعنی پوچھی گئی صورت) میں اگر امام سنت کے مطابق قراءَت کرتا ہے تو مقتدیوں کو امام کے خلاف باتیں کرنے کی اجازت نہیں اور اگر وہ مذکورہ طریقے پر قراءَت نہیں کرتا بلکہ اس سے ہَٹ کر دیگر لمبی سورتیں پڑھتا ہے تو اس صورت میں وہ قصور وار ہے، مقتدیوں کو چاہئےکہ پیارو محبت سے اُسے سمجھائیں نہ یہ کہ اس کے خلاف باتیں کرنا شروع کردیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
محمد ہاشم خان العطاری المدنی
Comments