فقاہتِ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم

حضور نبیِّ کریم، رءوفٌ رحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ارشادِپاک  ہے:  اللہ کریم جس کے ساتھ  بھلائی  کا ارادہ کرتا  ہے اسے دین کی سمجھ بُوجھ عطا فرماتا ہے۔(بخاری ،ج1،ص43، حدیث:71)

اللہ پاک نے حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہکو ایسی زبردست فقہی صلاحیت سے نوازا  کہ کروڑوں مسلمان آپ کی تقلید کرتے ہیں۔آپ کی صلاحیتوں  کا اِعتراف اِمامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم مُحدِّث و فقیہ ہی نہیں بلکہ مُحدِّثین و فقہائے کِرام کثر    ہم اللہ  السلام کے امام بھی تھے۔ آپ کے ہم زمانہ جلىلُ القدر علما و مفتیانِ کِرام  نے آپ کی فقہی مہارت اور پیچیدہ مسائل کو لمحوں میں  حل  کرنےکی خُدا داد صلاحیت دیکھ کر اپنے اپنے انداز میں  کلماتِ تحسین ارشاد فرمائے جنہیں تاریخ نے اپنے سنہری گوشوں میں قیمتی موتیوں  کی طرح محفوظ کر رکھا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی فقہی مہارت کے متعلق ایسے کئی  مسائل کا ذِکْر ملتا ہے جنہیں بڑے بڑے فقہا حل نہ کرسکے لیکن آپ نے فورا ً حل فرمالیا۔ آئیے!  آپ کی ذَہانت اور علمی صلاحیّت سے متعلق 2  دلچسپ حکایات مُلاحَظہ کیجئے:مہارتِ فتویٰ اىک شخص نے اپنى بىوى سے کہا: مىں قسم کھاتا ہوں کہ تم سے  اس وقت تک بات نہىں کروں گا جب تک تم مجھ سے بات نہ کرو، ورنہ تمہیں طلاق۔ جواباً بىوى نے بھى یہی قسم کھالی۔ اِمام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کے پاس یہ مسئلہ پہنچا تو آپ نے اُس شخص سے فرماىا: جاؤ! اپنى بىوى سے گفتگو کرو، کچھ نہىں ہوگا۔ جب حضرتِ سیّدنا سُفىان ثَورى علیہ رحمۃ اللہ القَوی کو آپ کے فتوىٰ کا علم ہوا تو (حیرت سے )  کہنے لگے: کیا آپ حرام کو حلال کرتے ہیں؟ اِمام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم نے اپنے فتوے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماىا: شوہر نے قسم کھائى تھى کہ وہ بىوى کے بولنے سے پہلے گفتگو  نہىں کرے گا، ىہ سن کر بىوى نے بھى یہی قسم کھائى اور جب قسم کھائى تو اُس نے شوہر سے بات کرلى، اب جب شوہر اُس سے بات کرے گا تو ىہ کلام بىوى کى گفتگو کے بعد ہوگا، اِس طرح  کسى کى قسم نہىں  ٹوٹے گی۔ یہ وضاحت سن کر حضرت سیّدنا سفىان ثَورى علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے فرمایا: اے ابوحنىفہ! اللہ پاک نے آپ کیلئے علم کے وہ راستے کُشادہ فرمائے ہىں جو ہماری پہنچ سے دُور ہیں۔ (الخیرات الحسان ، ص 71)چور کا نام بتانے پر تین طلاق: ایک شخص کے پاس رات میں  چورآگئے اور اس کے کپڑے لے گئے  اوراس سے یہ قسم بھی لی کہ اگر تم  نے ہمارے بارے میں کسی کو بتایا تو تمہاری بیوی  کو تین طلاق، جب صبح ہوئی تو اس شخص نے دیکھا کہ اس کے کپڑے بازار میں بک رہے ہیں لیکن وہ کچھ بول نہیں سکتا تھا، چنانچہ وہ اپنے مسئلے کے حل کیلئے امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، امام صاحب نے فرمایا: تمہارےمحلے کے چوروں کو ایک جگہ جمع کیاجائے پھر ایک ایک کرکےوہ نکلتے جائیں اورہر ایک کےبارے میں تم سے پوچھا جائے:کیا یہ تمہارا چور ہے؟اگر وہ چور نہ ہو تو تم کہہ دینا کہ نہیں اور اگر ہو تو خاموش ہوجانا،چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور یوں چوروں کو پہچان لیا گیا اور چوروں نے اس شخص کا سارا مال لَوٹا دیا اور اس کی قسم بھی سچّی ہوگئی کیونکہ اس نے ان کے متعلّق کسی کو بتایا نہیں۔(الخیرات الحسان، ص72)

آپ کی مُرَتَّب کردہ فقہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ علّامہ ابنِ حجر مکّی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَویفرماتے ہیں:آپ کا مذہب ان علاقوں تک بھی پھیلا جن میں اور کسی امام کا مذہب نہیں ہے جیسا کہ ہند،(باب الاسلام) سندھ، رُوم اور مَاوَرَاءَالنَّہْر وغیرہ۔(الخیرات الحسان،ص 43)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭  ذمہ دار شعبہ بیانات دعوتِ اسلامی،المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی


Share

فقاہتِ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم

اِستِقامت ترقّی کا زِینہ اور دنیاو آخِرت میں کامیابی پانے کا ذریعہ ہےاسی لئے کہاجاتاہےکہ استِقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابو علی جُوزَجَانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں: استِقامت اختِیار کرو، کرامت کے طلب گار مَت بنو کیونکہ تمہارا نفس کرامت کےلئے بے چین ہے اور تمہارا رب تم سے اِستقامت کا مطالبہ فرماتا ہے۔(رسالہ قشیریہ، ص 240) لہٰذا ہمارے بزرگانِ دین  نےعلم کا نورحاصل کرنے کے لئے استقامت  کا مظاہرہ کیا مثلاً حضرتِ سیّدنا امام ابو یوسف یعقوب بن اِبراہیم اَنصاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے سِراجُ الاَئِمَّہ حضرتِ سیّدنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی صحبتِ بابرکت میں مسلسل 17سال رہ کر علمِ دین کی مَنازل طےکیں۔(سیر اعلام النبلاء،ج7،ص708) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ذوقِ علم کا یہ عالَم تھا کہ ایک بار آپ حضرت ِسیّدنا امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کی مجلسِ درس میں حاضر تھے، لوگوں نے آپ کو آپ کے بیٹے کے انتقال کی خبر دی،اس خیال کے پیشِ نظر کہ اگر میں چلا گیاتو میرا اس دن کا سبق چھوٹ جائےگا آپ   رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے تجہیز و تکفین کا اِنتظام کسی اور کے حوالے کیا اور خود درس میں حاضر رہے۔(المستطرف،ج1،ص40، ماخوذاً) یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے کہ ذاتی صلاحیتوں کو نکھارنے میں تعلیمی ادارے  کا ماحول،اَساتذہ کی  تربیَت اور طالبِ علم کی اپنی کوشش کا بے پناہ دَخْل ہوتا ہے یہی عَناصِر مل کر انسان کی شخصیّت (Personality) کو نِکھارتے، قابلیَّت کو بڑھاتے اور مُعاشَرے میں نمایاں مقام دلواتے ہیں اور استقامت کو عملاً پسند اور چھٹی کوعملاً ناپسند کرنے والے  طلبہ ہی یہ مقام حاصل کرپاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ”چھٹی“ طلبہ کوسب سے بہترین نعمت”علم“ سے محروم کردیتی ہے۔ استقامت کے ساتھ کلاس میں آنےاور روزانہ اساتذہ کی نگرانی میں علم کی منزلیں طے کرنے سےکامیابی قدم چومتی ہے جیسا کہ حضرتِ سیّدنا امام ابن شہاب زُہری علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:اگر تم زبردستی کرکے علم پر قابو پانے کی کوشش کرو گے تو یہ تم پر حاوی ہوجائے گا، لہٰذا کئی دنوں اور راتوں  میں رَفتہ رَفتہ علم حاصل کرو تب تمہیں کامیابی ملے گی۔( الجامع فی  الحث  علی حفظ العلم، ص187) چھٹی کے 7 نقصانات چھٹی کرنےوالے طالبِ علم کو جن ذہنی، جسمانی اور مُعاشرَتی نقصانات کاسامنا کرنا پڑسکتا ہےان میں سے7یہ ہیں: (1)حصولِ علم کا تسلسُل ٹوٹ جاتا ہے (2)چھٹی کےدن سبق رہ جانے کی وجہ سے اگلے دن نیا سبق سمجھ نہیں آتا یوں بورِیت اور بیزارِیت محسوس ہوتی ہے (3)سبق سمجھ نہ آنے کی وجہ سے مایوسی پیدا ہوتی ہے (4)زندگی غیرمنظّم (Non Organized) ہوجاتی ہےجس کی وجہ سے کلاس سے فرار ہونے کو دِل چاہتا ہے (5)اُستاذ کی جانب سے ملنے والا کام بوجھ محسوس ہوتاہے (6)والدین اور اساتذہ ناراض ہوتے ہیں (7)چونکہ تعلیمی ادارہ چھٹی پر طلَبہ کوسمجھانا اور سَرزَنِش کرنا اپنی اَخلاقی ذِمّہ داری سمجھتا ہےمگرچھٹی کاعادی انتظامیہ کی خیرخواہی کو نہیں سمجھ پاتا اور ان سےاُلجھ یاجھگڑ کرخود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لیتا ہے۔ لہٰذا شاہراہِ علم پر کامیابی سے سفر جاری رکھنے کےلئے چھٹی سے گریز کیجئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ ذمہ دارشعبہ فیضان اولیا و علما ،المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی


Share