حضرت سیِّدُنا عَتّاب بن اسید رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ

سن 8ہجری ماہِ رمضان میں فتحِ مکّہ کے بعد نورِ ایمان مکّۂ مکرمہ زادہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً کے گھر گھر میں داخل ہوچکا تھا، لوگ جوق دَر جوق آ کر رحمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دستِ مبارک پر اسلام کی بیعت کرنے لگے، مختلف روایات کے مطابق 17،18،یا19دن مکّۂ معظّمہ میں گزار کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مقامِ حُنَین کی جانب کُوچ فرمایا۔ اس وقت ایک ایسی قابلِ اعتماد ہستی اور جانثار ساتھی کی ضَرورت پیش آئی جو یہاں کے نظم و نَسَق اور انتظامی مُعامَلات سنبھالنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہو۔نبیِّ رَحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نظرِ انتخاب ایک ایسے صَحابی پر جا ٹھہری جو مذکورہ صِفات سے مُتَّصِف ہونے کے ساتھ ساتھ متّقی، صالح، مسلمانوں کے مددگار اور مکّۂ مکرمہ زاد ہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً کے رہائشی بھی تھے۔ (طبقات ابن سعد، 2/102تا104، زرقانی علی المواہب، 3/485) چنانچہ اس ہستی کو مکّۂ مکرمہ زاد ہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً کا امیر مقرّر کرتے ہوئے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: میں نے تمہیں مکّے والوں پر امیر بنایا، یہ دیکھ کر اہلِ مکّہ نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ نے ایک سخت مزاج دیہاتی کو ہم پر امیر مقرّر کردیا ہے؟ ارشاد فرمایا: میں نے رات خواب میں دیکھا کہ یہ جنّت کے دروازے کے پاس آئے اور اس کے کُنڈے کو پکڑ لیا پھر اسے زور سے ہِلایا تو ان کے لئے دروازہ کھول دیا گیا پھر یہ اس میں داخل ہوگئے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے سبب اسلام کو معزّز کیا ہے جب کوئی مسلمانوں پر ظلم کرنا چاہے گا تو اِن کی حمایت مسلمانوں کے ساتھ ہوگی۔ پیارے اسلامی بھائیو! فتحِ مکّہ کے بعد مکّۂ مکرمہ زاد ہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً کے سب سے پہلے امیر بننے کا شرف پانے والی شخصیت حضرت سیِّدُنا عَتَّاب بن اَسِیْد اُمَوِی قرشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تھی، اس وقت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمْر مبارَک مختلف روایات کے مطابق 18یا21سال تھی۔(سیرت حلبیہ، 3/149تا150) قبولِ اسلام دولتِ ایمان سے سرفراز ہونے سے پہلے آپ اسلام کو سخت ناپسند کرتے تھےیہاں تک کہ جب فتحِ مکّہ کے بعد ظہر کی نماز کا وقت آیا تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم سے حضرت سیِّدُنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی۔ اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ کی ایمان افروز صَدا بلند ہوئی اور حرم کے حِصار اور کعبہ کے دَرودِیوار پر ایمانی زندگی کے آثار نمودار ہوئے تو آپ کی غیرت کی آگ بھڑک اُٹھی اور یہ الفاظ زبان سے نکلے:خدا نے میرے باپ کی لاج رکھ لی کہ اس آواز کو سُننے سے پہلے ہی اسے دنیا سے اُٹھا لیا۔ (سیرت حلبیہ، 3/145 مفہوماً) مگر سیّدِ دو عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فیضِ صحبت سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں نورِ ایمان کا سورج چمک اُٹھا اور صادقُ الایمان مسلمان بن گئے۔ قبیلہ و کُنْیت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ قرشی، اُمَوِی ہیں جبکہ کُنْیت ”ابو عبد الرّحمٰن“ یا ”ابو محمد“ تھی۔(اسد الغابہ، 3/575) مکّے کے پہلے امام مکّۂ معظّمہ میں لوگوں کو باجماعت نَماز پڑھانے کے لئے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آپ ہی کا چناؤ ہوا اس طرح آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مکّۂ مکرمہ زاد ہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً میں باجماعت نَماز پڑھانے والے پہلے امام مقرّر ہوئے اس دوران دینی احکام اور فقہی مسائل سکھانے کی ذمّہ داری حضرت سیِّدُنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تھی۔ نمازِ باجماعت کا اہتمام آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ منافقین پر سختی اور مومنوں پر نرمی کیا کرتے تھے اور فرماتے: خدا کی قسم! میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ نَماز میں جماعت سے پیچھے رہنے والے کی گردن اُڑادوں گا کیونکہ باجماعت نَماز سے پیچھے رہنے والا منافق ہوتا ہے۔ (سیرت حلبیہ، 3/149) یہ بات اس لئے ارشاد فرمائی تھی کہ دورِ رسالت میں نَماز سے کوئی مسلمان دُور نہیں رہتا تھا جبکہ منافقین ہی نَماز میں حاضری سے کتراتے تھے۔ فضائل و مناقب فتحِ مکّہ سے پہلے ایک رات سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ ارشاد فرمایا: مکّہ میں قُریش کے چار افراد ایسے ہیں کہ میں جنہیں شِرک سے دُورسمجھتا ہوں اور ان میں اسلام کی رغبت پاتا ہوں، ان میں سے ایک عَتَّاب بن اَسِیْد ہیں۔(تاریخ ابن عساکر، 15/106 ماخوذاً) ایک مرتبہ یہ ارشاد فرمایا:میں دو نوجوانوں کو آگ سے الگ رکھتا ہوں عَتَّاب بن اَسِید اور اَبان بن سعید، یہاں راوی کو شک ہے کہ شاید دوسرے جُبَیر بن مُطعِم ہیں۔(مصنف عبد الرزاق، 10/231، رقم:20599) فتحِ مکّہ کے بعد پہلا حج سن 8ہجری میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سر پرستی میں مسلمانوں نے حج کی سعادت پائی تھی، اس وقت تک مشرکین بھی اپنے طریقے سے حج کیا کرتے تھے پھر 9ہجری میں حضرت سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امیرُالحج بناکر روانہ کیا گیا اور مشرکین کو حج کرنے سے روک دیا گیا۔(الاستیعاب، 3/144) دوکپڑوں کا حساب ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا عتّاب بن اَسِید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خانۂ کعبہ سے اپنی پیٹھ لگاکر ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! پیارے آقا، سرکارِ دو جہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے جس کام پر نگران مقرر کیا، وہ میں نے درست طریقے سے کیا، سوائے دو کپڑوں کے، جو میں نے اپنے غلام کَیْسَان کو پہنا دئیے تھے۔(تاریخ ابن عساکر، 16/176) لہٰذا کوئی مجھ سے مطالَبہ نہ کرے کہ عَتَّاب نے مجھ سے فُلاں چیز چھینی ہے۔ روزانہ کی آمدَنی پھر فرمایا:رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے لئے روزانہ کے دو درہم مقرّر کئے ہیں اور اللہتعالیٰ اس پیٹ کو بھرتا نہیں ہے جس کے لئے روزانہ دو درہم بھی کم پڑجاتے ہوں۔(اسد الغابہ، 3/576) وصالِ مبارَک حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری وفات کے بعد حضرت سیِّدُنا ابوبکر صِدّیق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے آپ کو اسی عہدے پر برقرار رکھا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کم و بیش 25سال کی عمْر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ یاد رہے کہ امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور امیرِ مکّہ یعنی حضرت سیِّدُنا عَتَّاب بن اَسِید رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وصالِ مبارَک ایک ہی دن سِن 13ہجری 22جمُادَی الاُخریٰ کو ہوا تھا۔(الوافی بالوفیات، 19/289)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share