امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

کوفہ شہر میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حلقۂ درس سے تِشْنگانِ علم (علم کے پیاسے) اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ ایک دن ایک لڑکا حاضر ہوا۔ ذِہانت جس کے چہرے سے عِیاں (ظاہر) تھی۔ اس نے امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم سے پوچھا: اس نابالغ لڑکے کے بارے میں آپ کا فتویٰ کیا ہے جو رات کو عشا کی نماز پڑھ کر سوئے اور اسی رات فجر سے پہلے وہ بالغ ہوجائے، کیا اُسے نمازِ عشا دوبارہ پڑھنی چاہئے؟ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم نے فرمایا: ہاں! اسے نماز دُہرانی ہوگی۔ یہ سنتے ہی وہ لڑکا اُٹھا اور مسجد کے ایک کونے میں جاکر نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔ اس امامِ ذِی شان نے اس نوجوان کو دیکھ کر ارشاد فرمایا:یہ لڑکا اِنْ شَآءَ اللہ تعالٰی ترقّی کرے گا۔(بلوغ الامانی،ص5 مفہوماً)

پیارے اسلامی بھائیو! زمانے کی آنکھوں نے دیکھا کہ امامِ اعظم حضرتِ سیّدنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی نظرِ فیضِ اثر پانے والا یہ نَوعمر لڑکا اپنے وقت کا امام بنا اور دنیا میں آج تک امام محمد بن حسن شیبانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کا فرمان پورا ہوا اور آپ مُجْتَہِد فِی الْمَذہَب([1]) کےمنصب پر فائز ہوئے۔ ولادت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی پیدائش مبارَکہ 132ھ کو مشرقی عراق کے شہر واسط میں ہوئی۔ آپ کا نام محمد بن حسن اور کنیت ابو عبداللہ ہے۔ ایک ہفتے میں حفظِ قراٰن اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کی بارگاہ میں علمِ فقہ سیکھنے کے لئے حاضر ہوئے۔ امام صاحب نے فرمایا کہ پہلے قراٰ نِ پاک یاد کرکے آؤ۔ آپ ایک ہفتے میں قراٰنِ پاک حفظ کرکے دوبارہ حاضرِ خدمت ہوگئے اور امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم نے انہیں اپنی شاگردی میں قبول فرما لیا۔ (بلوغ الامانی،ص4،6) اساتذہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے امامِ اعظم اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما سمیت امام مالک، امام اوزاعی، امام سفیان ثَوری، مِسْعَر بن کِدام اور عمر بن ذر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین جیسی عظیم ہستیوں سے علم حاصل کیا۔(تاریخ بغداد، 2/169) منفرد اعزاز آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ مذاہبِ اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) میں سے ہر ایک نے آپ سے بِالواسطہ یا بِلاواسطہ (Direct) اِستفادہ کیا ہے۔ امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے آپ سے براہِ راست علم سیکھا، فقہِ مالکی کی کتبِ اسدیہ کے مؤلّف اسد بن فُرَات رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ امام محمد کے شاگرد تھے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا گیا کہ مشکل ترین مسائل کا علم آپ کو کہاں سے حاصل ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کتابوں سے۔ (بلوغ الامانی، ص9، مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ للذھبی، ص79تا 86ماخوذاً) ان چاروں مذاہب میں آپ کا فیضان پایا جاتا ہے۔ ذوقِ مطالعہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ رات کو بہت کم سوتے اور اکثر وقت مطالعہ میں گزارتے۔ جب کوئی مسئلہ حل ہوجاتا تو فرماتے: بھلا شہزادوں کو یہ لذّت کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔ کسی نے پوچھا: آپ سوتے کیوں نہیں؟ تو فرمایا: میں کیسے سو جاؤں جب لوگوں کی آنکھیں (شرعی مسائل میں) ہم پر اعتماد کرکے سوئی ہوئی ہیں۔( بلوغ الامانی،صجامع الاحادیث، 1/285) مشہور کتب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کثیرُ التّصانیف بزرگ تھے۔ علمِ حدیث میں آپ کی مشہور کتاب مؤطا امام محمد ہے جس کی اکثر روایات آپ نے امام مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے لی ہیں۔ اسی طرح کتابُ الآثار بھی علمِ حدیث میں آپ کی مشہور تالیف ہے۔ اس کے علاوہ فقہِ حنفی میں آپ کی چھ کتابوں کا مجموعہ مشہور ہے جنہیں ظاہرُالرّوایہ کہا جاتا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں: اَلْجَامِعُ الْکَبِیْر، اَلْجَامِعُ الصَّغِیْر، اَلسِّیَرُ الْکَبِیْر، اَلسِّیَرُ الصَّغِیْر، مَبْسُوط، زِیَادات۔ اس کے ساتھ ساتھ فقہِ حنفی ہی میں اَلْجُرْجَانِیَّات، اَلْکَیْسَانِیَّات، اَلْھَارُوْنِیَّات، اَلرِّقِّیَّات بھی مشہور ہیں۔(جامع الاحادیث، 1/288،290، 293) مبارک فرمان امام محمد علیہ رحمۃ اللہ الاَحَد فرماتے ہیں: میرے والد نے 30ہزار درہم چھوڑے تھے جن میں سے 15ہزار درہم کو میں نے علمِ حدیث اور علمِ فقہ حاصل کرنے پر خرچ کیا۔(تاریخ بغداد، 2/170) چیف جسٹس حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے وصال کے بعد آپ عراق کے قاضیُ القضاہ (چیف جسٹس) مقرر ہوئے۔ وصال آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال 14جُمادَی الاُخریٰ 189ھ میں ہوا۔ انہی دنوں میں آپ کے خالہ زاد بھائی امام کِسَائی (جو علمِ لغت کے مشہور امام ہیں) کا بھی انتقال ہوا۔ ان دونوں ہستیوں کو ”رَے“ کے مقام پر دفن کیا گیا۔ اس وقت کے خلیفہ ہارونُ الرّشید نے اس وقت ایک جملہ کہا تھا کہ آج میں نے فقہ اور لغت دونوں کو ”رَے“ میں دفن کر دیا۔ کسی نے امام محمد علیہ رحمۃ اللہ الاَحَد کو خواب میں دیکھ کر پوچھا: کَیْفَ کُنْتَ فِی حَالِ النَّزْعِ آپ نے حالتِ نزع کو کیسا پایا؟ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت مُکاتَب غلام کے متعلّق فکر وتأمّل میں کھویا ہوا تھا مجھے تو پتا ہی نہیں چلا کہ میری روح کب نکلی؟(تعلیم المتعلم، ص99) اللہ تعالیٰ کی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم



[1] وہ مُقَلِّد مجتہد جو اپنے امام کے بنائے گئے قَوانِین کی روشنی میں اَحکام کے اِستنِباط کی اَہلیّت رکھتا ہو اگرچہ وہ اپنے امام کی فُروع میں مُخالفت کرتے ہوں مگر اُصول میں اپنے ہی امام کی پیروی کرتا ہو۔ جیسے امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما۔(رد المحتار، 1/181،جدالممتار،1/301)


Share

امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

تعارف حضرت سیِّدُنا امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کا اسمِ گرامی محمد، کُنْیَت ابو عبداللہ اور والد کا نام اسماعیل ہے، آپ کی ولادت ازبکستان کے مشہور شہر بُخارا میں ہوئی، اس لئے آپ کو بُخاری کہا جاتا ہے۔ آپ اُمَّتِ محمدیّہ کے بہت بڑے عالم، مُحدّث، فقیہ، مجتہد تھے۔ آپ کے والد بھی بڑے عالِم اور حضرت سیّدُنا حمّاد بن زید اور امام مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہِما کے شاگرد تھے اور والد صاحب کی کمائی اتنی پاکیزہ تھی کہ انہوں نے مرتے وقت ارشاد فرمایا: میرے علم کے مطابق میرے مال میں حرام اور شُبہ کا ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ والدۂ محترمہ مُستَجابُ الدَّعوات (یعنی جو دُعائیں مانگتیں، قبول ہوجاتی) تھیں۔ امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے کئی کُتُب تصنیف فرمائی ہیں جن میں سب سے زیادہ مقبول ”صحیح بخاری“ ہے، آپ نے اس کتاب کو تقریباً 16سال میں مکمل فرمایا۔ امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کی ولادت 13شوّالُ المُکرّم 194ھ کو جمعۃُ المبارک کے دن ہوئی اور تقریباً 62 سال کی عمر میں 256ھ کو ہفتے کی رات وِصال فرمایا۔ آپ کی قبرِ مبارَک کی مٹّی سے بہت عرصے تک خوشبو آتی رہی اور لوگ اسے برکت کے لئے لے جاتے رہے۔(مراٰۃ المناجیح، 1/11، تاریخِ بغداد،2/6، سیر اعلام النبلاء،10/284، طبقات الشافعیۃ الکبریٰ، 2/233، فتح الباری،1/454) ذریعۂ معاش امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کاشتکار اور تاجر تھے اور منقول ہے کہ والد کی وِراثَت میں آپ کو بہت سا مال ملا جسے مُضارَبت([1]) کے طور پر دیا کرتے تھے۔(مصابیح الجامع للدمامینی، 5/49، فتح الباری، 1/454) نیّت بدلنا پسند نہیں کیا حضرت سیّدُنا بَکْر بن منیر علیہ رحمۃ اللہ القدیر بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ ایک شخص نے امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِیکے پاس سامان بھیجا، شام کو آپ کے پاس کچھ تاجر آئے اور 5000درہم کے نفع پر وہ سامان خریدنا چاہا تو آپ نے فرمایا: آج کی رات ٹھہر جاؤ، دوسرے دن تاجروں کا دوسرا گروہ آیا، انہوں نے 10ہزاردرہم کے نفع سے خریدنے کی پیش کش کی، امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے فرمایا: کل جو تاجر آئے تھے، میں نے ان کو فروخت کرنے کی نیّت کر لی ہے۔ چنانچہ آپ نے انہیں ہی سامان بیچا اور ارشاد فرمایا: میں اپنی نیّت بدلنا پسند نہیں کرتا۔(تاریخِ بغداد، 2/12) ہر ماہ 500کی آمدنی طلبِ علم میں خرچ امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے ایک مرتبہ فرمایا: مجھے ہر ماہ 500درہم آمدنی ہوتی تھی اور میں وہ سب کی سب علم کی طلب میں خرچ کردیتا تھا۔(سیر اعلام النبلاء، 10/309) ککڑی بہت پسند تھی حضرت سیّدُنا محمد بن اَبو حاتِم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کا ایک زمین کا ٹکڑا تھا جس کا آپ ہر سال 700درہم کرایہ لیا کرتے تھے، کرایہ دار بعض اوقات امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کے لئے ایک یا دو ککڑیاں لایا کرتا تھا کیونکہ امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِیکو پکی ہوئی ککڑی بہت پسند تھی اور آپ اس کو خربوزے پر ترجیح دیتے تھے، امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی اس شخص کو ککڑی لانے کے سبب ہر سال 100درہم دیا کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء، 10/308)

اللہ پاک ہمیں امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کی سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی کمائی راہِ خدا میں اور حاجت مندوں پر خرچ کرنے کی سعادت نصیب کرے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم



[1] مُضارَبت تجارت میں ایک قسم کی شرکت ہے جس میں ایک شخص کی طرف سے مال ہوتا ہے اور دوسرے شخص کی طرف سے کام۔(بہارِ شریعت، 3/1 ملخصاً)


Share