کوفہ شہر میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حلقۂ درس سے تِشْنگانِ علم (علم کے پیاسے) اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ ایک دن ایک لڑکا حاضر ہوا۔ ذِہانت جس کے چہرے سے عِیاں (ظاہر) تھی۔ اس نے
امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم سے پوچھا: اس نابالغ لڑکے کے بارے میں آپ کا فتویٰ کیا ہے جو
رات کو عشا کی نماز پڑھ کر سوئے اور اسی رات
فجر سے پہلے وہ بالغ ہوجائے، کیا اُسے نمازِ
عشا دوبارہ پڑھنی چاہئے؟ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم نے فرمایا: ہاں! اسے نماز دُہرانی ہوگی۔ یہ سنتے ہی وہ لڑکا اُٹھا اور مسجد
کے ایک کونے میں جاکر نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔ اس امامِ ذِی شان نے اس نوجوان کو
دیکھ کر ارشاد فرمایا:یہ لڑکا اِنْ شَآءَ اللہ تعالٰی ترقّی کرے
گا۔(بلوغ
الامانی،ص5 مفہوماً)
پیارے اسلامی بھائیو! زمانے کی آنکھوں نے دیکھا کہ امامِ
اعظم حضرتِ سیّدنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ کی نظرِ فیضِ
اثر پانے والا یہ نَوعمر لڑکا اپنے وقت کا امام بنا اور دنیا میں آج تک امام محمد
بن حسن شیبانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے نام سے
مشہور و معروف ہے۔ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ
الاَکرم کا فرمان پورا ہوا
اور آپ مُجْتَہِد فِی الْمَذہَب([1]) کےمنصب پر فائز ہوئے۔ ولادت آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ کی پیدائش مبارَکہ
132ھ کو مشرقی عراق کے شہر واسط میں ہوئی۔
آپ کا نام محمد بن حسن اور کنیت ابو عبداللہ ہے۔ ایک ہفتے میں حفظِ قراٰن اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ
الاَکرم کی بارگاہ میں علمِ فقہ سیکھنے کے لئے
حاضر ہوئے۔ امام صاحب نے فرمایا کہ پہلے قراٰ نِ پاک یاد کرکے آؤ۔ آپ ایک ہفتے میں
قراٰنِ پاک حفظ کرکے دوبارہ حاضرِ خدمت ہوگئے اور امامِ اعظم علیہ
رحمۃ اللہ الاَکرم نے انہیں
اپنی شاگردی میں قبول فرما لیا۔ (بلوغ
الامانی،ص4،6) اساتذہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے امامِ اعظم اور امام ابویوسف
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما سمیت امام مالک،
امام اوزاعی، امام سفیان ثَوری، مِسْعَر
بن کِدام اور عمر بن ذر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین جیسی عظیم ہستیوں سے علم حاصل کیا۔(تاریخ بغداد، 2/169) منفرد اعزاز آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ مذاہبِ اربعہ
(حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) میں سے ہر ایک نے آپ سے بِالواسطہ یا
بِلاواسطہ (Direct) اِستفادہ کیا ہے۔ امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ
الکافی نے آپ سے براہِ راست علم سیکھا، فقہِ
مالکی کی کتبِ اسدیہ کے مؤلّف اسد بن فُرَات رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ امام محمد کے شاگرد تھے۔ اسی طرح
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا گیا کہ مشکل ترین
مسائل کا
علم آپ کو کہاں سے حاصل ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ امام محمد بن حسن رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کی کتابوں سے۔ (بلوغ
الامانی، ص9، مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ للذھبی، ص79تا 86ماخوذاً) ان چاروں مذاہب میں آپ کا فیضان پایا جاتا ہے۔ ذوقِ مطالعہ آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ رات کو بہت کم سوتے اور اکثر وقت مطالعہ
میں گزارتے۔ جب کوئی مسئلہ حل ہوجاتا تو فرماتے:
بھلا شہزادوں کو یہ لذّت کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔ کسی نے پوچھا: آپ سوتے کیوں نہیں؟ تو فرمایا:
میں کیسے سو جاؤں جب لوگوں کی آنکھیں (شرعی مسائل میں) ہم پر اعتماد کرکے سوئی ہوئی ہیں۔( بلوغ الامانی،ص7، جامع الاحادیث، 1/285) مشہور کتب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کثیرُ التّصانیف بزرگ تھے۔ علمِ حدیث میں آپ کی مشہور کتاب مؤطا
امام محمد ہے جس کی اکثر روایات آپ نے امام مالک رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ سے لی ہیں۔ اسی طرح کتابُ الآثار بھی علمِ حدیث میں آپ کی مشہور تالیف ہے۔ اس کے
علاوہ فقہِ حنفی میں آپ کی چھ کتابوں کا مجموعہ مشہور ہے جنہیں ظاہرُالرّوایہ کہا
جاتا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں: اَلْجَامِعُ الْکَبِیْر، اَلْجَامِعُ الصَّغِیْر، اَلسِّیَرُ الْکَبِیْر، اَلسِّیَرُ الصَّغِیْر، مَبْسُوط، زِیَادات۔ اس کے ساتھ ساتھ فقہِ حنفی ہی
میں اَلْجُرْجَانِیَّات، اَلْکَیْسَانِیَّات، اَلْھَارُوْنِیَّات، اَلرِّقِّیَّات
بھی مشہور ہیں۔(جامع الاحادیث، 1/288،290، 293) مبارک فرمان امام محمد علیہ رحمۃ اللہ
الاَحَد فرماتے ہیں: میرے والد نے 30ہزار
درہم چھوڑے تھے جن میں سے 15ہزار درہم کو میں نے علمِ حدیث اور علمِ فقہ حاصل کرنے
پر خرچ کیا۔(تاریخ بغداد، 2/170) چیف جسٹس حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے وصال کے بعد آپ عراق کے قاضیُ القضاہ (چیف جسٹس) مقرر ہوئے۔ وصال آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ کا وصال 14جُمادَی الاُخریٰ 189ھ میں ہوا۔ انہی دنوں میں آپ کے خالہ زاد بھائی امام کِسَائی
(جو علمِ لغت کے مشہور امام ہیں) کا بھی انتقال ہوا۔ ان دونوں ہستیوں
کو ”رَے“ کے مقام پر دفن کیا گیا۔ اس وقت کے
خلیفہ ہارونُ الرّشید نے اس وقت ایک جملہ کہا تھا کہ آج میں نے فقہ اور لغت دونوں
کو ”رَے“ میں دفن کر دیا۔ کسی نے امام محمد علیہ رحمۃ اللہ
الاَحَد کو خواب میں دیکھ کر پوچھا: کَیْفَ کُنْتَ فِی حَالِ النَّزْعِ آپ نے حالتِ نزع کو کیسا پایا؟ آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت
مُکاتَب غلام کے متعلّق فکر وتأمّل میں کھویا ہوا تھا مجھے تو پتا ہی نہیں چلا کہ
میری روح کب نکلی؟(تعلیم المتعلم، ص99) اللہ تعالیٰ کی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments