گزشتہ سے پیوستہ
(3)غیرنصابی(Extracurricular) تربیتی سرگرمیاں
٭ استاد
کو چاہئے کہ صرف پڑھانے کی حد تک نہ رہے بلکہ بچوں کو سیکھنے کے عمل میں مدد دینے
کےلئے نصابی اور غیر نصابی دونوں طریقے استعمال کرے۔
٭ استاد کا کردار اور ذمّہ داری صرف تعلیمی ادارے ہی تک محدود نہیں ہوتی، طالبِ علم استاد کا لگایا ہوا وہ پودا ہوتا ہے جس کی
حفاظت و پرورش کرنا، دنیا کے سَرْد وگرم سے بچانا، آبیاری کرنا، نگہداشت کرنا اور
پروان چڑھانا استاد کی ذمّہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ طالبِ علم کی
درسگاہ کے علاوہ کی مصروفیات و مَشاغل سے بھی حتَّی الاِمکان واقفیت رکھے تاکہ اسے
گھر کا کام (Homework)دینے اور اسباق وغیرہ کی تیاری نہ ہونے یا کمی ہونے کی صورت میں مناسب
انداز میں نصیحت کرسکے، طَلَبہ کو صرف کتاب پڑھا دینا اور نصاب مکمل کروا دینا
حقیقی کامیابی نہیں، اصل کامیابی یہ ہے کہ نصاب کے ساتھ ساتھ کتابِِ زندگی بھی
پڑھائے، دنیا میں جینے اور کامیاب رہنے کے اسلامی اُصول بھی سکھائے۔
٭ بچے
کی تربیت میں والدین اور استاد دونوں ہی کا اہم حصّہ ہوتاہے، استاد کو چاہئے کہ
کبھی بھی یہ نہ سوچے کہ یہ میرے پاس پڑھنے آئے ہیں، کتاب پڑھاؤں، سبق سنوں اور
واپس بھیج دوں، تربیت ماں باپ خود کریں۔
٭ بچوں
کی تربیت کے ہر پہلو کو ملحوظِ خاطر رکھنے کیلئے مرد اَساتِذہ بچوں کے والد اور
خواتین ٹیچرز والدہ سے رابطہ رکھیں اور ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی
کوشش کریں۔ ہر ہر بات کی شکایت کرنے کے بجائے خامیوں کو دور کرنے کی سچی نیّت
سے مُشاورت کریں اور بچوں میں علم حاصل کرنے کی لگن پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔
٭ ایک
اچھا استاد اپنے طالب علموں کے دلوں میں اپنے مقصد اور نصبُ العین سے لگن پیدا
کرتا ہے اور ان کو بے کار مَشاغِل سے اجتناب کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ایک کامیاب
استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو محنت کا عادی بنائے اور انہیں
سمجھائے کہ کاہلی، سستی، وقت کے زِیاں اور کام کو ٹالنے کی عادت سے تعلیمی معیار گِرتا
ہے جو ایک قوم کا مجموعی نقصان ہے۔
(4)طلبہ کی
صلاحیت و میلانِ طبعی کی پَرَکھ
٭ اچھے
استاد کے اوصاف میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے طلبہ کو پریشانی اور ناکامی کی صورت
میں حوصلہ دے اور مزید محنت سے کام لینے کی نصیحت کرے اور اچھے مشورے دے، ایک مدنی
اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میں نے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات دئیے ، جب رزلٹ آیا تو
عربی کے مضمون میں فیل تھا، بہت پریشانی ہوئی کہ پسندیدہ مضمون میں ہی فیل ہوگئے! اتفاق
سے میرے بہت ہی شفیق و مکرم استاد محترم ہمارے شہر میں مدنی قافلے میں تشریف لائے
ہوئے تھے، ان سے شرفِ ملاقات پایا، صورتِ حال عرض کی تو انہوں نے حوصلہ دیا اور قریبی
بیکری پر لے جا کر مٹھائی وغیرہ کھلائی اور فرمایا کہ پریشان نہیں ہوں، بورڈ آفس(Board Office)جائیں اور اپنے پیپر رِی چیک کروائیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّبہتر ہوگا۔ میں نے ہمت کی اور بورڈ آفس پہنچا، شکایت درج کروائی، ایک ہفتے
کا وقت ملا، ہفتے بعد جب دوبارہ گیا تو بورڈ آفس میں موجود ایک سیّد صاحب(جنہیں شکایت درج کروائی تھی انہوں) نے بڑے پُرجوش انداز میں یہ کہتے
ہوئے:”ارے حافظ صاحب! کہاں رہ گئے آپ، مَا شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّبہت نمبر آئے ہیں آپ کے!“ نیا رزلٹ کارڈ میرے ہاتھ میں تھما دیا، میں نے
دیکھتے ہی اللہ
کریم کا شکر ادا کیا کہ میرے عربی کے مضمون میں 92فیصد نمبر تھے۔
٭ طالبِ
علم کو اس کی ذہنی اِسْتِعداد، میلانِ طبع اور شوق و لگن کے اعتبار سے نیک مشورہ و راہنمائی دینا بھی ایک اچھے استاد کے اعلیٰ
ترین اوصاف بلکہ ذمّہ داریوں میں سے ہے۔ ایک جامع مسجد کے امام و خطیب مدنی اسلامی
بھائی کا بیان ہے کہ میں حفظِ قراٰن کے بعد کالج میں داخلہ (Admission) لینے گیا، فیس جمع کروانے
لائن میں کھڑا تھا کہ قاری صاحب کا فون آگیا، صرف ایک جملہ کہا اور لائن کٹ گئی: ”بیٹا!
میں نے تو سوچا تھا کہ آپ درسِ نظامی کریں گے“ قاری صاحب دورانِ حفظ میرا ذہنی
میلان ملاحظہ فرماچکے تھے، اسی لئے ایسی نصیحت کی چنانچہ اسی ایک جملے نے میری
دنیا بدل دی اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں نے درسِ نظامی میں داخلہ لےلیا اور تکمیل کے بعد مسجد میں امامت و
خطابت اور خدمتِ دین کے ایک اہم شعبہ میں مصروف ہوں۔
٭ باقاعدہ
تعلیم کے اختتامی سال طلبہ عملی زندگی میں جانے کے لئے شعبہ جات کا انتخاب کر رہے
ہوتے ہیں۔ اس موقع پر طلبہ کو درست راہنمائی کی اَشَد ضرورت ہوتی ہے، ایک شفیق و تجربہ کار استاد پرلازم ہے کہ طلبہ کو ان کی صلاحیتوں اور طبعی میلان کے مطابق درست شعبہ کی طرف راہنمائی کرے۔ دعوتِ اسلامی کے علمی شعبہ ”المدینۃُ العلمیۃ“ کے ایک مدنی اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میں جامعۃُ المدینہ میں درجۂٔ
خامسہ میں پڑھتا تھا، ایک دن ذہن میں ایک سوال آیا اور اس کے بارے میں مطالعہ شروع
کیا لیکن مناسب جواب نہ مل سکا، بالآخر اپنے مطالعہ کی روشنی میں ایک سوالنامہ
ترتیب دیا اور اپنے استاد صاحب کو پیش کیا، استاد صاحب نے تحریر دیکھی تو جو پہلی
نصیحت کی وہ یہ تھی کہ آپ ”المدینۃُ
العلمیۃ“ میں انٹری ٹیسٹ دیں۔ میرا فی الحال کسی بھی کام کا ارادہ نہ تھا، دوسرے
اور تیسرے دن بھی استاد صاحب نے یہی ذہن بنایا، چنانچہ میں نے ”المدینۃُ العلمیۃ“
میں ٹیسٹ دیا اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کامیاب ہونے کے بعد تاحال خدمتِ دین کے اس اہم شعبہ میں مصروف ہوں۔
پیارے اسلامی بھائیو!آخرُالذّکر سچی حکایات
سے مقصود صرف یہ ہے کہ ایک اچھا استاد ہر قدم اور ہر موڑ پر اپنے طلبہ کی راہنمائی
اور حوصلہ افزائی کرتاہے۔
آئندہ قسط میں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت
سے آپ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تعلیم بیان کیا جائے گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
Comments