مرنے سے پہلے

جس کی نظر اور سوچ محض دنیا تک محدود ہوتی ہے وہ اپنے دنیاوی آج اور کل کی فکر کرتا ہے کہ وہ پریشانیوں، تکلیفوں اور آزمائشوں سے محفوظ رہے لیکن جس کی نگاہ میں آخِرت کی اَہَمِّیَّت زیادہ ہوتی ہے وہ صرف دنیا ہی کی نہیں سوچتا بلکہ اُخْرَوِی زندگی کیلئے زیادہ غور و فکر کرتا ہے اور اسے بہتر بنانے کیلئے کوشش کرتا ہے۔

عقل مند کون؟

ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ!صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں میں سب سے زیادہ عَقْل مَنْد اور مُحتاط کون ہے؟ پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:وہ لوگ جوموت سے پہلے اسے کثرت سے یاد کرتے اور اس (موت) کیلئے زیادہ تیاری کرتے ہیں وہی عَقْل مَنْد ہیں، وہ دنیا اور آخِرت کی بزرگی لے گئے۔ (معجمِ کبیر، 12/318، حدیث: 13536)

پیارے اسلامی بھائیو! موت کی تیّاری کیلئے نماز، روزہ اور دیگر حقوقُ اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ماں باپ، بھائی بہن، بیوی بچّے، پڑوسی اور دیگر لوگوں کے حقوق کی پاسداری (نگہبانی، ادائیگی) بھی نہایت اَہَمِّیَّت کی حامل ہے، ان کے علاوہ بھی کئی ایسے کام ہیں کہ جن کی طرف عام طور پر لوگوں کی توجّہ نہیں ہوتی، مثلاً

غسلِ میّت اور تکفین وتدفین کا علم

ایک عقل مند شخص خود بھی ان چیزوں کا علم حاصل کرتا اور اپنی اولاد اور گھروالوں کو بھی اس کی دُرست دینی تعلیم دیتا ہے، بعض اوقات موت کی یاد کو برقرار رکھنے کے لئے کفن بھی خرید لیتا ہے تاکہ گھر میں اگر کسی کا بھی انتقال ہوجائے تو بجائے کسی کو بلانے، اس کا انتظار کرنے، کفن کاٹنے اور پہنانے کے حوالے سے پریشان ہونے کے، خود ہی غسلِ میّت اور تکفین کے مُعامَلے کو آسانی سے نمٹالیا جائے۔ موت کی تیّاری میں مصروف رہنے والا شخص جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے خاندان اوراہل وعیال میں میّت پررونے اور نَوحہ)[1]( کرنے کا رَواج عام ہے تو وہ اپنی زندگی ہی میں انہیں اس سے منع کرتا اور نَوحہ کرنے کی سزائیں جو احادیثِ طیّبہ میں بیان کی گئی ہیں ان سے انہیں آگاہ کرتا ہے، اگر منع نہیں کرے گا تو پھر جو ہوگا ملاحَظہ کیجئے، چنانچہ

ہر بات پر میّت کو ایک ضرب لگاتے ہیں

حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مُردے کو اس کے گھر والوں کے رونے کی مقدار عذاب دیا جاتا ہے۔ جب گھر والے کہتے ہیں: اے ہماری عزّت! اور اے ہماری وجاہت! تیرے بعد ہمارا کون ہوگا؟ پس میّت اپنی قبر میں اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور عذاب کے فرشتے اہلِ میّت کے ہرکلمہ پر میّت کو ایک ضرب لگاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے جوڑ ٹوٹ جاتے ہیں اور فرشتے اسے کہتے ہیں: کیا تُو ویساہی تھا جیساکہ تیرے گھر والوں نے کہا؟ کیا تُو ان کو رزق دیتاتھا؟یا تُو ان کا امیر یا کفیل (ان کے کام اپنے ذمّہ لینے والا)

تھا؟ تو وہ اللہپاک کی قسم کھا کر اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے:یارب! مَیں تو بہت کمزور و ناتواں تھا اور تُو ہی وہ پاک

ذات ہے جو مجھے بھی اوران کو بھی رزق دیتا ہے۔اللہ کریم فرماتا ہے: مَیں نے تجھے اس لئے سزادی کیونکہ تُو نے (مرنے سے پہلے) اُن کو اس (نَوحہ) سے منع نہیں کیا تھا۔(قرۃ العیون مع الروض الفائق، ص393) فقیہِ ملّت حضرت علّامہ مولانا مفتی جلالُ الدّین احمد امجدی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں کہ (میّت کو عذاب اس صورت میں ہوگا) جبکہ اس نے رونے کی وصیّت کی ہو یا وہاں رونے کا رَواج ہواور اس نے منع نہ کیا ہو۔ (انوار الحدیث، ص220)

جنّت میں داخلہ منع

عقل مند شخص کو قرض کے مُعامَلے میں بھی احساس ہوتا ہے کیونکہ یہ بَہُت بڑا بوجھ ہے، جبکہ آج کل قرض کے مُعامَلے میں بہت غفلت برتی جاتی ہے، جو لوگ ادائے قرض میں ٹالَم ٹول کرتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جُھوٹ مُوٹ ”آج کل“ کرتے ہوئے موت آجائے اور قَبْر میں جان پھنس جائے۔ فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر کوئی آدَمی اللہ پاک کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زِندہ ہو پھر اللہ پاک کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زندہ ہو اور اس کے ذِمّے قرض ہو تو وہ جنَّت میں داخِل نہ ہوگا یہاں تک کہ اُس کا قرض ادا کر دیا جائے۔(مسند احمد، 8/348، حدیث: 22556)

چنداہم اُمور

حقیقی طور پر موت کی تیّاری کرنے والا شخص اپنی زندگی ہی میں غور و فکرکرتا، مرنے سےپہلےہی خود کوقرض کےبوجھ سے آزاد کرالیتا ہے، ورنہ کم از کم اسے تحریر کرکے رکھ لیتا اور اس پر کسی کوآگاہ کردیتاہےیاموت سےپہلےہی کسی کو زبانی بتادیتا ہے تاکہ اسےاداکیا جاسکے، اسی طرح جب کسی کو دیا ہوا قرض واپس لینا ہوتب بھی اسے لکھ لیتا اوراس پرکسی بااعتماد شخص کومطّلع کر دیتا ہے، تاکہ بعد میں اسے وُصول کرکے اسے ترکہ میں شامل کیا جاسکے،اپنے بینک اکاؤنٹس، اےٹی ایم کارڈز اور ان کے پاس ورڈ،اہم کاغذات وغیرہ اور دیگراس طرح کی ضروری چیزوں پراپنی فیملی وغیرہ میں سے کسی لائقِ بھروسا شخص کو مطّلع کردیتا ہے، ورنہ بسا اوقات آدَمی کے دنیا سے جاتےہی ایک بڑی رقم اوردیگرکئی اہم چیزوں سے وُرَثا محروم ہوجاتے ہیں۔

معاشرے کا ایک ناسور

ایک عَقْل مَند شخص جب معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر نگاہ ڈالتا ہے تو اسےیہ بات بھی نظر آتی ہے کہ کم علمی اور بدعملی کی وجہ سے مالِ وِراثت کی تقسیم اور اس کی احتیاطوں پر عمل نہیں ہو رہا، لوگ ایک دوسرے کاحق دبا رہےہیں، لڑائی جھگڑوں اور کئی طرح کے ناجائز وحرام کاموں میں مصروف ہیں، تووہ دانا آدَمی مرنے سے پہلےہی وِراثت کے حوالےسے جو شرعی قوانین ہیں ان سےاپنے گھروالوں اور دیگر وُرَثا کو آگاہ کرتا اور انہیں اس کی تقسیم کاری میں اللہ پاک سے ڈرنے کا ذہن دیتا ہے۔

وصیّت کر دیجئے

مرنے سے پہلے کرنے والے کاموں میں سے ایک کام ”وصیّت“کرنا بھی ہے، وصیّت کس طرح کرنی چاہئے اوراس میں کن کن باتوں کو پیش ِ نظر رکھنا چاہئے اس کیلئے امیرِاہلِ سنّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ محمدالیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تحریر کردہ وصیّتیں (جوکہ ”مدنی وصیّت نامہ“ رسالے میں موجود ہیں،یہ) بہترین مُعاوِن و مددگارہیں،ان کی روشنی میں موت کی تیّاری کرنے والا ہر محتاط شخص زبردست انداز میں اپنا وصیّت نامہ تیّار کرسکتا ہے، وصیّت کرکے مرنے کی فضیلت ملاحظہ ہو۔

وصِیّت باعثِ مغفرت

فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو وصیّت کرنے کے بعد فوت ہوا وہ سیدھے راستے اور سنّت پر فوت ہوا اوراس کی موت تقویٰ اور شہادت پر ہوئی اوراس حالت میں مرا کہ اس کی مغفرت ہوگئی۔(ابن ماجہ، 3/ 304، حدیث: 2701)

میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ اپنی نظر اور سوچ کے دائرۂ کار کو فقط دنیا تک محدود نہ رکھیں بلکہ نماز، روزہ اور دیگر حقوقُ اللہ اور حقوق ُالعباد کی ادائیگی کا خیال کرتے ہوئے موت سے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری



[1] نَوحہ کے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے صفحہ نمبر 6پر حدیث شریف کی شرح بنام”کسی کے فوت ہونے پر رونا“ پڑھئے۔


Share