ارشادِ باری تعالیٰ ہے وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)
ترجمہ:اور وہ جو سچ لائے اور سچ کی تصدیق کی تو
وہی متقی ہیں۔ (پ 24، الزمر:33)
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور مفسرین کی ایک
جماعت سے اس آیت کی ایک تفسیر یہ مروی ہے کہ سچ لانے والے سے مراد نبیِّ کریم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ وسلَّم ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے سے مراد سیّدُنا ابوبکر
صدیق رضی
اللہ عنہہیں۔(صراط الجنان،ج8،ص466)
خصوصیت سے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا ذکر آپ کی شان پر
دلیل ہے۔ آپ رضی
اللہ عنہ کی
شانِ صدیقیت کی نسبت سے اس مضمون میں صدیقیت کے معنی و مفہوم پر امام غزالی رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کے احیاء العلوم میں بیان کردہ کلام کی روشنی میں کچھ وضاحت کی
جاتی ہے۔
”صِدْق“(سچائی اور سچا ہونے) کی چھ اَقسام
ہیں:(1)قول میں سچا ہونا (2)نیت و اِرادے میں سچا
ہونا (3)عزم میں سچا ہونا (4)عزم پورا کرنے میں سچا ہونا (5)عمل میں سچا ہونا (6)دین کے تمام مقامات کے اعلیٰ درجے کے
حصول میں سچا ہونا۔
پس جو شخص صدق (سچائی)
کے ان
تمام معانی کے ساتھ مُتَّصِف ہو تو وہ صِدِّیق (بہت ہی سچا) ہے کیونکہ وہ صِدْق (سچائی) میں انتہا کو پہنچا
ہوتا ہے۔ پھر صادِقِین کے کئی درجے ہیں تو جس شخص میں مذکورہ معانی میں سے کسی ایک
معنیٰ میں صِدْق پایا جائے وہ اسی کے اعتبار سے صادِق کہلائے گا۔
(1)زبان
کا صدق
پہلی قسم زبان کا صدق ہے یعنی وہی
بات کہی جائے جو حقیقتِ حال کے مطابق ہے۔ حقیقت کے خلاف بات کرنے کو جھوٹ کہتے
ہیں۔ صدق کی اِس قسم میں وعدے کا سچا ہونا بھی داخل ہے یعنی جو وعدہ کرے، اسے پورا
کرے اور خلاف ورزی نہ کرے۔ یہ قسم واجب ہے اور صدق کی اقسام میں سے سب سے زیادہ
مشہور یہی قسم ہے۔ لہٰذا جھوٹ بولنے سے بچنے والا شخص صادِق ہے۔ البتہ بعض صورتوں
میں شریعت کی طرف سےخلافِ حقیقت بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے جیسے دو مسلمانوں میں
صلح کروانے، بیوی کے ساتھ اظہارِ محبت کرنے اور جنگی ضروریات کے لئے اس معاملے میں
کئی رخصتیں موجود ہیں۔
لیکن زبان کی سچائی میں ایک اور
اہم بات یہ ہے کہ بندہ خدا سے مناجات میں جو الفاظ کہتا ہے ان میں بھی سچا ہو جیسے
اگر کوئی زبان سے تو یہ کہے:” اِنِّیْ وَجَّهْتُ
وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ یعنی میں نے اپنا منہ
اُس خدا کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنائے۔“ لیکن اس کا دل اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی بجائے
دُنیاوی خواہشات میں مشغول ہو تو وہ شخص جھوٹا ہے۔ اسی طرح اگر زبان سے کہے:” اِیَّاكَ نَعْبُدُیعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔“ لیکن دل و دماغ بندگی کی حقیقی کیفیت سے خالی ہوں اور اس
کا مطلوب خداکے سوا کچھ اور ہو تو اس کا کلام سچا نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنے نفس
کا بندہ تھا یا دنیا کا یا اپنی خواہشات کا، کیونکہ آدمی جس چیز کو مطلوب و مقصود
سمجھتا ہے اور جو اس کے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے تو وہ اسی کا بندہ کہلاتا ہے۔ اسی
معنی کے اعتبار سے حدیث میں فرمایا گیا: ”ہلاک ہوگیا دینار کا بندہ ،ہلاک ہوگیا
درہم کا بندہ ،حلے کا بندہ اورجبے کا بندہ۔“(یعنی جو اِن
ہی کی طلب اور حصول میں لگارہتا ہے۔)
خدا کا بندہ حقیقت میں وہ ہےجس کا
دل غیر سے خالی ہو، محبتِ الٰہی میں ڈوبا ہوا ہو، ظاہر و باطن میں خدا کا فرماں
بردار ہو اور اس کا مطلوب و مقصود صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہو۔
(2)نیت
و اِرادے میں صِدْق
صِدْق کی دوسری قسم کا تعلق نیت سے
ہے۔ نیت میں صدق یہ ہے کہ آدمی کی عبادت
اور نیکی کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی
ہو۔ اگر اس میں کوئی نفسانی غَرَض شامل ہو گئی تو نیت میں صِدْق باطل ہوجائے گا
اور ایسے شخص کو جھوٹا کہا جا سکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ
صدق کا ایک معنیٰ اخلاص ہے لہٰذا ہر صادق کے لئے مخلص ہونا ضَروری ہے۔
(3)عزم میں صدق
صدق کی
تیسری قسم مستقبل کے متعلق عزم میں سچا ہونا ہے کیونکہ انسان کبھی مستقبل کے متعلق
یہ عزم کرتا ہے کہ ”اگر اللہ تعالیٰ
مجھے مال عطا کرے تو میں اتنا اتنا مال غریبوں کو دے دوں گا یا مجھے کوئی عہدہ ملا
تو عہدے کاصحیح استعمال کروں گا اور خیانت و ناانصافی نہیں کروں گا“ ایسا عزم کبھی
تو واقعی پختہ اور سچا ہوتا ہے اور کبھی کمزور ہوتا ہے کہ کرنے کا ارادہ بھی ہوتا
ہے لیکن نہ کرنے کا خیال بھی دماغ میں کہیں چھپا ہوتا ہے۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے
صادق اور صِدِّیق وہ ہے جس کا نیکیوں کا
عزم بہت مضبوط ہو، کمزور نہ ہو۔
(4)صدق کی چوتھی قسم عزم پورا کرنے میں سچا ہونا ہے
نفس بعض اوقات فی الحال تو پکا ارادہ کر لیتا ہے کیونکہ ارادہ کرنے میں تو کوئی
مشقت نہیں ہوتی، لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو عزم کمزور پڑجاتا ہے اور نفس غالب آجاتا
ہے اور یوں بندہ اپنا عزم پورا نہیں کرتا۔ یہ بات صِدْق کے خلاف ہے اور لوگوں کی
بڑی تعداد اِس خلاف ورزی میں مبتلا ہے کہ لمبے چوڑے ارادے کرتے ہیں لیکن عمل کے
وقت حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اپنے عزم پر عمل کرنے والوں کی تعریف میں قرآن میں
فرمایا:”کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کردیا وہ عہد جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا۔“(پ21،الاحزاب:23)
(5)صدق کی پانچویں قسم اعمال میں صدق ہے
وہ یہ کہ
نیک اعمال کے وقت بندے کاباطن بھی ویسا ہو جیسا ظاہر نظر آرہا ہے مثلاً نماز میں
ظاہری آداب پورے ہوں تو باطن یعنی دل میں بھی خشوع موجود ہو۔ ظاہر میں صوفی و
عاشقِ رسول نظر آتا ہے تو دل کی کیفیت بھی ویسی ہی ہو۔ الغرض ظاہرو باطن کا ایک جیسا ہونا صِدْق
کی ایک قسم ہے۔
(6)صِدْق کی
چھٹی قِسْم مقاماتِ دین میں صدق
یہ قسم سب سے اعلیٰ لیکن بہت نایاب ہے اور اس کا تعلق
مقاماتِ دین سے ہے جیسے خوفِ خدا، اللہ تعالیٰ سے امید، دنیا سے بے رغبتی، رضائے الٰہی پر راضی رہنا، محبتِ الٰہی اور
طریقت کے دیگر تمام بلند مقامات میں سچا ہونا، کیونکہ خوف و امید و زہد و توکل و
رضا و محبت وغیرہا امور میں کچھ ابتدائی حالات ہوتے ہیں کہ جن کے ظاہر ہونے پر یہ
نام لئے جاتے ہیں، لیکن پھر ان کی حقیقتیں اور انتہائی مرتبے ہوتے ہیں۔ حقیقی صادق
وہی ہے جو ان کی حقیقت اور اعلیٰ ترین مرتبے تک پہنچ جائے اور ان خوبیوں سے کما
حقہ متصف ہو۔ سیّدُنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صدق کی ان تمام اقسام سے متصف ہونے میں انبیاء
کے بعد تمام انسانوں میں سب سے بلند مرتبہ
رکھتے ہیں، اسی لئے آپ رضی اللہ عنہ کا لقب صدیقِ اکبر (سب سے بڑا
صِدّیق)ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مفتی
محمد قاسم عطاری
٭…دارالافتاءاہل سنت
عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments