روشن تعلیمات لانے والے رسول مکرم ﷺ

اسلام کی روشن تعلیمات

 روشن تعلیمات لانے والے رسولِ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

*مولانا عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

انبیاءِ کرام علیہم السّلام کی بعثت کا بنیادی مقصد اللہ کی مخلوق کو کفر کے اندھیروں سے ہدایت اور ایمان کی روشنی کی طرف لانا ہے۔

ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رسول بنا کر بھیجنے کے مقاصد پر غور کیا جائے تو چند چیزیں بہت واضح ہیں جیسا کہ اللہ کریم نے خود فرمایا:

(وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷))

ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔([i])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دوسری آیتِ کریمہ میں ہے:

(كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ(۱۵۱))

ترجمۂ کنز الایمان: جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔([ii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

قراٰنِ مجید کی ایسی کئی آیات ہیں کہ جو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کا مقصد بیان کرتی ہیں۔ اسی طرح احادیثِ مبارکہ کے مجموعہ کی طرف سرسَرِی نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود بَنَفْسِ نفیس کئی روایات میں اپنی مبارک بعثت کے مقصد کو بیان فرمایا ہے۔ مقاصدِ بعثت پر مشتمل ان ہی احادیث میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں:

ایک بار جب رسول ُاللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی گئی: آپ مشرکین کے   خلاف دعا کیوں نہیں کرتے تو فرمایا:إنّما بُعِثْتُ رَحْمَةً وَ لَمْ اُبْعَثْ عَذاباً یعنی مجھے تو رحمت ہی بناکر بھیجا گیا ہے اور مجھے عذاب کے لئے نہیں بھیجا۔([iii])

ایک اور موقع پر فرمایا: اِنِّي لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا، وَ اِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً یعنی بے شک میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا میں تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔([iv])

ان دونو ں ر وایات سے صاف ظاہر ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کا مقصد لعنت یا عذاب نہیں بلکہ رحمت ہی رحمت ہے۔ مسلمانوں پر آپ کی خاص رحمت ہے اور رحمتِ عامہ کافر وں پر بھی ہے یوں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت سے دنیا میں کفار پر عذاب آنا بند ہوا۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیشہ کفار کو اسلام کی دعوت دے کر رحمتِ ایزدی سے قریب کرنے کی کوشش فرمائی۔ جو رحمت سے قریب کرنے کے لئے بھیجا گیا ہو وہ رحمت سے دور کیسے کرسکتا ہے۔ اس لئے آپ نے فرمایا: اِنِّي لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا ترجمہ:میں لَعَّان (یعنیلعنت کرنے والا)بناکر نہیں بھیجا گیا۔

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک اور حدیثِ پاک میں اپنی بعثت کا مقصد یوں بیان فرمایا:اِنَّمَا بَعَثَنِى اللَّهُ مُبَلِّغًا وَلَم يَبْعَثْنى مُتَعَنِّتًا یعنی اللہ کریم نے مجھے مبلغ بنا کر بھیجا ہے،مجھے متشدد بنا کر نہیں بھیجا۔ ([v])

اس روایت میں ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی بعثت کا مقصد تبلیغ کو قرار دیا کہ جن چیزوں کو حلال قرار دیا گیا ہے وہ بھی بتا دوں اور جنہیں حرام قرار دے کر ان سے روک دیا گیا ہے انہیں بھی بیان کر دوں۔

ایک روایت میں یوں بیان فرمایا ہے: وَ اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا یعنی میں تو مُعلِّم ہی بناکر بھیجا گیا ہوں۔([vi])

اس روایت میں ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے تشریف لانے کا مقصد یہ بتایا کہ مجھے معلم،اُستاد اور سکھانے والا بناکر بھیجا گیا ہے۔خیال رہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگرچہ   سب سے بڑے عبادت گزاربھی ہیں لیکن حضور کی عبادت عملی تعلیم ہے۔لہٰذا آپ نماز پڑھتے ہوئے بھی معلم ہیں۔ یوں آپ کا عبادات کرنا رضائے الٰہی کے لئے بھی ہے اور اُمّت کو سکھانے کے لئے بھی۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری کا اصل مقصد تعلیم ہے رب فرماتا ہے:

(وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ)

ترجمۂ کنز العرفان: اور تمہیں کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے۔([vii])

ایک روایت میں مقصدِ بعثت یوں بیان فرمایا:اِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِيْ بِتَمَامِ مَكَارِمِ الْاَخْلَاقِ وَكَمَالِ مَحَاسِنِ الْاَفْعَالِ یعنی اللہ کریم نے مجھے تمام مکارمِ اخلاق اور محاسنِ افعال کی عمدگی سے نواز کر بھیجا ہے۔([viii]) ایک اور روایت میں ہے: بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَ خْلَاقِ یعنی میں محاسنِ اَخلاق کی تکمیل کیلئے ہی بھیجا گیا ہوں۔([ix]) حضرت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ ان الفاظ سے روایت ذکر کرتے ہیں: بُعِثْتُ لِأ ُتَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ یعنی میں حسنِ اخلاق کی اَقْدار کو مکمل کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ ([x])

امام بخاری و مسلم کے استاد صاحب نے ایک روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے:اِنَّمَا بُعِثْتُ لاُتَمِّمَ صَلاحَ الاَخْلاَقِیعنی میں تو اچھے اَخلاق کومکمل کرنے کے لئے ہی بھیجا گیا ہوں۔([xi])

حضرت امام احمد بن حنبل نے ان الفاظ سے روایت ذکر کی ہے: اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الْاَخْلَاقِ یعنی میں تو عمدہ اَخلاق کو مکمل کرنے کے لئے ہی بھیجا گیا ہوں۔([xii])

حضرت امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں:ہمارے نزدیک اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ پاک نے حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس لئے مبعوث فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کیلئے ان کے دین کی تکمیل فرمادیں، اور اللہ پاک کا یہ فرمان

(اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ)

ترجمۂ کنز الایمان: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا ([xiii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسی معنی و مفہوم کی وہ آیت ہے جو اللہ پاک نے حضور اکرم پر نازل فرمائی ہے، لہٰذا اللہ پاک کا حضور کو دنیا میں بھیجنااس لئے تھا کہ آپ لوگوں کے لئے اُس دین کی تکمیل فرمائیں کہ جس پر آپ سے پہلے انبیائے کرام عمل پیرا رہے ہیں، پھر اللہ پاک نے اس آیت

(اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ) کو نازل فرما کر اس دین کے مکمل ہونے کی خبر دی۔ اِکمال سے مراد اِتمام ہے۔اور یہی معنیٰ حضور کے فرمان: ”بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الْاَخْلَاقِ “میں بھی مذکور ہے اور ”صَالِحَ الْاَخْلَاقِ “کا معنیٰ ”صَالِحَ الْاَدْیَانِ“ یعنی تمام ادیان کی اصلاح ہے اور وہ دینِ اسلام سے ہوئی ہے۔([xiv])

حضرت علامہ ابنِ عبدالبر مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ اس روایت کے تحت لکھتےہیں:”صَالِحَ الْاَخْلَاقِ“ میں تمام تَر صلاح و خیر، دین، فضائل، مُروَّت، بھلائی اور عدل و انصاف سب کچھ شامل ہے، اسی وجہ سے تو حضور کو ان صفات کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔ علمائے اسلام نےفرمایا: اللہ پاک نےاپنے اس فرمان:

(اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۹۰))

ترجمۂ کنز الایمان: بےشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتاہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو([xv])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

میں تمام نیک اعمال،فضیلت اور عمدہ اخلاقی صفات کو جمع فرمادیا ہے۔([xvi])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث، المدینۃ العلمیہ Islamic Research Center کراچی



([i])پ17،الانبیاء:107

([ii])پ 2، البقرۃ:151

([iii])شعب الایمان، 2/144، حدیث: 1403

([iv])مسلم،ص1074،حدیث:6613

([v])ترمذی، 5/211، حدیث: 3329

([vi])ابن ماجہ،1/150،حدیث:229

([vii])پ2، البقرۃ: 151

([viii])معجم الاوسط، 5/153، حدیث:6895

([ix])نوادر الاصول،1/1107،حدیث:1425

([x])موطأ لامام مالک، 2/404، حدیث:1723

([xi])مصنف ابن ابی شیبہ،16/498،حدیث: 32433

([xii])مسند احمد، 14/512، حدیث: 8952

([xiii])پ6،المائدۃ:3

([xiv])شرح مشکل الآثار،11/262،تحت الحدیث: 4432

([xv])پ 14،النحل:90

([xvi])التمہید،10/527


Share