فاروق اعظم رضی اللہ عنہ امت کے نگہبان

روشن ستارے

فاروقِ اعظم امت کے نگہبان

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

 حکومت اور سلطنت کو بحسن و خوبی  اور کامیابی سے چلانے کے لئے ایک حاکم کو جن باتوں اور کاموں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے ان میں سے ایک کام اپنی رعایا کے احوال کی خبر گیری رکھنا ہے، کہتےہیں کہ جس طرح دودھ پلانے والی اپنے بچے کی دیکھ بھال کرتی ہے یونہی بادشاہ کو چاہئے کہ وہ اپنی عوام کی دیکھ بھال کرے، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کی بےشمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ جہاں دن کے وقت لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے مسائل حل فرماتے وہیں رات کو رعایا کے معاملات کی دیکھ بھال بھی کیا کرتے تھے، آئیے اس مناسبت سے چند واقعات پڑھئے۔

اُمتِ محمدیہ کے لئے فکر مند رہتے: ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے زمانے میں قحط پڑا آپ کا زمانۂ قحط سے پہلے بھی یہی معمول رہتا تھا کہ آپ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے پھر گھر میں داخل ہوجاتے اور رات دیر تک نماز پڑھتے رہتے پھر باہر نکلتے اور راستوں کی طرف آجاتے اور چکر لگاتے رہتے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک رات سحر کے وقت میں نے انہیں یہ دعا کرتے سُنا: اے اللہ! تو امتِ محمدیہ کو میری خلافت میں اور میرے سامنے ہلاکت سے دوچار نہ کرنا۔ ([1])

مسجد میں لوگوں سے پوچھ گچھ :حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ عشاء کی نماز کے بعد مسجد کی طرف بار بار آتے اور کسی کو وہاں رہنے نہ دیتے تھے ہاں! اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہوتا تو اسے مسجد میں ہی رہنے دیتے ایک مرتبہ مسجد میں حضرت اُبَی بن کعب رضی اللہُ عنہ کے  ساتھ کچھ لوگ موجود تھے کہ حضرت عمر فاروق تشریف لے آئے، آپ نے حضرت اُبَی بن کعب سے پوچھا: یہ کون ہیں ؟ حضرت ابی بن کعب نے جواب دیا: آپ کے خاندان کے کچھ لوگ ہیں۔ آپ نےسب سے پوچھا: تم لوگ کس وجہ سے نماز عشاءکے بعد (مسجد میں) ٹھہرے ہوئے ہو؟ لوگوں نے کہا: ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کررہے ہیں، جواب سُن کر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ بھی  ان کے ساتھ بیٹھ گئے، پھر ایک ایک شخص کے پاس جاتے اور اس سے کہتےکہ میرے لئے دعا کرو تو وہ حضرت عمر فاروق  رضی اللہُ عنہ کے لئے دعا کردیتا ،آخر میں ایک شخص کے پاس پہنچ کر دعا کرنے کا کہا تووہ دعا کرنے میں جھجکنے لگا،یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: صرف اتنی ہی دعا کردو کہ اے اللہ ہماری مغفرت فرما اور ہم پر رحم فرما، پھر آپ نے خود دعا شروع کردی،یہ دیکھ کر سب پر رقت طاری ہوگئی اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہسب سے زیادہ رو رہے تھے۔([2])

مشکیزہ خود اٹھالیا :ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ رات کے وقت نگہبانی فرما رہے تھے کہ ایک عورت کو دیکھا جو ایک مشکیزہ اٹھائے جارہی تھی، آپ نے اس عورت سے مشکیزے کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگی: گھر میں بچّے ہیں اور کوئی خادم نہیں ہے دن میں باہر نکلنا اچھا نہیں لگتا اس لئے رات کو نکلتی ہوں اور گھر والوں کے لئے پانی لے آتی ہوں، آپ نے اس عورت کا مشکیزہ خود اٹھالیا اور اس کے گھر تک پہنچادیا اور فرمایا: صبح عمر کے پاس چلی جانا وہ تمہیں ایک خادم دے دیں گے ،وہ عورت کہنےلگی: حضرت عمر تک رسائی نہیں ہے،آپ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: اللہ پاک نے چاہا تو تمہاری ان تک رسائی ہوجائے گی، صبح ہوئی اور وہ عورت فاروقِ اعظم کے پاس پہنچی تو اس نے پہچان لیا کہ رات اس کا مشکیزہ اٹھانے والے کوئی اور نہیں بلکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم خود تھے یہ دیکھ کر مڑی اور واپس چلی گئی، حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے  اس کے پیچھے کسی کو بھیجا اور اس عورت کو کچھ نان نفقہ اور ایک خادم دینے کا حکم فرمادیا۔([3])

بوڑھی خاتون سے دعا کروائی: ایک مرتبہ فاروق ِاعظم رضی اللہُ عنہ رات  کے وقت نگرانی کررہے تھے کہ ایک گھر میں چراغ جلتے ہوئے دیکھا آپ اس کے قریب گئے تو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت اون کو دُھْنک رہی تھی تاکہ اسے کاتے اور دھاگا بنائے اور یہ اشعار پڑھتی جارہی تھی:

عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَاةُ الْاَبْرَارْ

صَلَّى عَلَيْكَ الْمُصْطَفَوْنَ الْاَخْيَارْ

قَدْ كُنْتَ قَوَّامًا بَكِيَّ الْاَسْحَارْ

يَا لَيْتَ شِعْرِي وَالْمَنَايَا اَطْوَارْ

هَلْ تَجْمَعُنِي وَحَبِيبِي الدَّارْ

 محمد (عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پر نیک لوگوں کی طرف سے درود ہو ، متقیوں اور پرہیز گاروں کی جانب سے (یارسول اللہ) آپ پر درود ہو ، آپ (راتوں کو) بہت زیادہ نمازیں پڑھنے والے ہیں بَوقتِ سحر خوب رونے والے تھے ، موت کی مختلف حالتیں ہیں اے کاش! مجھے(کسی طرح ) معلوم ہوجاتا کہ کیا اللہ مجھے اور میرے پیارے حبیب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک گھر (جنت) میں ایک ساتھ رکھے گا۔ حضرت عمر فاروق نے یہ اشعار سنے تو وہیں بیٹھ گئے اور رونا شروع کردیا پھر روتے روتے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے پوچھا گیا:کون ہے؟ آپ نے جواب دیا: عمر بن خطاب! اندر سے پھر آواز آئی: امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق کو مجھ سے کیا کام؟ اور رات کی اس گھڑی میں امیر المؤمنین میرے پاس کیوں آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ آپ پر رحم کرے! دروازہ کھولئے، کوئی پریشانی کی بات نہیں، اس بوڑھی عورت نے دروازہ کھول دیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ اندر داخل ہوگئے، پھر ارشاد فرمایا: جو اشعار آپ نے ابھی پڑھے تھے وہ میرے سامنے دہرائیے، بوڑھی عورت نے اشعار پڑھنا شروع کردئیے جب آخری مِصْرَع هَلْ تَجْمَعُنِي وَحَبِيبِي الدَّار پڑھا تو حضرت عمر فاروق نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ آپ اس آخری شعر میں مجھے داخل کرلیں (یعنی جنّت میں پیارے نبی کی رفاقت پانے میں مجھے بھی شریک کرلیں) بوڑھی خاتون نے فوراً اگلا مِصْرَع کہا:وَ عُمَرَ فَاغْفِرْ لَہ ُیَا غَفَّارْ، (یعنی موت کی مختلف حالتیں ہیں اے کاش!کسی طرح مجھے معلوم ہوجاتا کہ کیا اللہ مجھے ، عمر کو اور میرے پیارے حبیب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک گھر (جنت) میں ایک ساتھ رکھے گا، اے بخشنے والی پاکیزہ ذات! عمر کو بخش دے) یہ دعائیہ کلمات سن کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہراضی بخوشی لوٹ گئے۔([4])

آیت سن کر بیمار ہوگئے: ایک مرتبہ فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات  کے وقت نگہبانی کےلئے باہر تشریف لائے، آپ کا گزر ایک انصاری صحابی رضی اللہُ عنہ کے  پاس سے ہوا وہ سورۂ طور کی تلاوت کررہے تھے جسے سن کر آپ اپنی سواری سے نیچے اتر آئے اور ایک دیوار سے ٹیک لگاکر کچھ دیر ٹھہرے رہے پھر اپنے گھر لوٹ آئے اور ایک مہینے تک بیمار رہے لوگ آپ کی عیادت کے لئے تشریف لائے لیکن بیماری کا سبب نہ جان پائے۔([5])

شہادت: مسلمانوں کے اس عظیم خلیفہ کو 26 ذو الحجہ بدھ کے دن شدید زخمی کردیا گیا جبکہ یکم محرم شریف 24 ھ اتوارکو روضۂ رسول میں آپ کی تدفین ہوئی، آپ کی خلافت 10 سال6 مہینے رہی۔ ([6])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([1])انساب الاشراف، 10/384

([2])وفاء الوفا باخبار دار المصطفیٰ، 2/198

([3])سراج الملوک للطرطوشی،ص527

([4])زہد لابن المبارک،ص 360، رقم :1024-نسیم الریاض، 4/428

([5])محض الصواب ، ص397 ملخصاً

([6])طبقات ابن سعد 3/278- مراٰۃ المناجیح، 7/204


Share