حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما

روشن ستارے

حضرت اسامہ بن زید رضیَ اللہ عنہما

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ اگست 2024

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہےاسے چاہئے کہ اسامہ سےبھی محبت کرے۔ ([i])

پیارے اسلامی بھائیو! حضرت اسامہ رضی اللہُ عنہ کے والدِ ماجد مشہور صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہُ عنہ جبکہ والدۂ ماجدہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضاعی والدہ حضرت اُمِّ اَیْمن رضی اللہُ عنہا ہیں، ([ii])آپ مکہ میں پیدا ہوئے اور یہیں پرورش پائی، اسلام کے علاوہ کسی مذہب کے قریب نہ گئے، والد ماجد حضرت زید کے ساتھ ہجرت کی سعادت پائی۔([iii]) آپ کا قد لمبااور ناک پتلی اوربلند تھی جبکہ رنگت سیاہ تھی([iv])خوش مزاج اور ملنسار تھے، انتظامی معاملات سنبھالنے میں ماہر، سمجھدار اور باہمت و دلیر تھے۔([v])

بارگاہِ رسالت: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آپ کی حیثیت گھر کے فرد کی طرح تھی آقاکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ سے شدید محبت فرمایا کرتے تھے ([vi])  اور بعض خصوصی مواقع پر اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے چند مثالیں ملاحظہ کیجئے: سن7 ہجری   میں سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عمرہ کی ادائیگی کے لئے تشریف لے گئے تو آپ حضور اقدس کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے اور اسی حالت میں مکہ میں داخل ہوئے،([vii]) 8ہجری فتح مکہ کے موقع پر بھی آقاکریم کے پیچھے سواری پر سوار تھے([viii])اسی موقع پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کعبۃ اللہ شریف میں داخل ہوئے تو حضرت اسامہ بھی ساتھ تھے ([ix]) حضور پرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ سے ایک ڈول پانی منگا کر بنفس نفیس کپڑا تَر کرکے کعبہ میں موجود تصاویر کو مٹانے میں شرکت فرمائی۔([x]) 10 ہجری حجۃُ الوداع کے موقع پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وقوفِ عرفہ کے بعد حضرت اسامہ کا انتظار کیا اور مزدلفہ روانگی کو مؤخر کئے رکھا یہاں تک کہ جب آپ آئے تو آپ کو عرفات سے مزدلفہ تک اپنے پیچھے سواری پر بیٹھنے کا شرف بخشا۔ ([xi])

سپہ سالار: 11ہجری ماہ صفر میں آقاکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت اسامہ رضی اللہُ عنہ کی سربراہی میں 700  مجاہدین کا ایک لشکر روانہ کیا جس میں حضرت عمر فاروق اور کئی اکابر صحابہ رضی اللہُ عنہم بھی شامل تھے لیکن پیارے آقا کی ظاہری وفات کے سبب یہ لشکر واپس لوٹ آیا([xii])اس وقت آپ کی عمر  18 یا 19سال تھی ([xiii])پھر حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہ عنہ نے حضرت اسامہ رضی اللہُ عنہ کو اسی معرکہ کے لئے دوبارہ روانہ کیا تو آپ 35 دن کے بعد کامیاب و کامران ہوکر پلٹے۔

بارگاہِ فاروقی: جب فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ آپ کو دیکھتے تو یوں کہتے: یعنی اے امیر! تم پر سلام ہو،ایک بار حضرت اسامہ رضیَ اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو فاروق اعظم رضیَ اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اسی طرح ’’امیر‘‘ پکارتا رہوں گا کیونکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری کے وقت تم ہمارے امیر (لشکر) تھے۔ ([xiv])حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں آپ کی تنخواہ3500 (درہم ) مقرر فرمائی اور اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کی تنخواہ 3000 ہزار (درہم) مقرر فرمائی، بیٹے نے عرض کی: آپ نے حضرت اسامہ کو مجھ پر فضیلت دی ہے حالانکہ میں ان لڑائیوں میں بھی شریک ہوا ہوں جس میں وہ شرکت نہ کرسکے۔ فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک! بارگاہِ رسالت میں تم سے زیادہ اسامہ محبوب تھے اور تمہارے والد”عمر“ سے زیادہ اُسامہ کے والد ”زید“ محبوب تھے، میں نے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے کو اپنے پیارے پر ترجیح دی ہے۔([xv])

والدہ سے محبت: حضرت اسامہ بن زید رضیَ اللہ عنہما اپنی والدہ محترمہ سے بہت محبت کیا کرتے تھےایک مرتبہ  مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضیَ اللہ عنہ کی خلافت میں کھجور کے ایک درخت کی قیمت ایک ہزار درہم کو پہنچ چکی تھی آپ اس درخت کے پاس گئے اور اس کے اوپری سرے کو کاٹ دیا پھر اندر سے اس کا گوند نکالا اور اپنی والدہ کو کھلایا، حضرت عثمان رضیَ اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کی: میری ماں نے مجھ سے اس کے کھانے کی خواہش ظاہر کی تھی اور میری والدہ مجھ سے جو بھی چیز مانگتی ہیں اور وہ میرے بس میں ہو تو میں اسے اپنی والدہ کو ضرور پیش کردیتا ہوں (کہتےہیں کہ کھجور کے درخت کے اندر کے گوند کو کھانا ” سل“ نامی بیماری میں بہت فائدہ مند ہے)۔ ([xvi])

دربارِ امیر معاویہ: حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ آپ کی بہت زیادہ عزت و احترم کیا کرتے تھے ایک مرتبہ حضرت اسامہ رضی اللہُ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ کے پاس گئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے آپ کو اپنے پاس بٹھایا اور نہایت عزت و احترام کا معاملہ کیا۔([xvii])

عادات:آپ ہر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے، ایک مرتبہ غلام نے عرض کی: آپ ضعیف اور کمزور ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی خاص ان دنوں کے روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ان 2 دنوں کے روزے رکھا کرتے تھے۔([xviii]) ایک مرتبہ آپ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ انور کے دروازے کے پاس لیٹ گئے اور بلند آواز سے اشعار پڑھنے لگے۔ ایک بار روضہ مبارکہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ وہاں سے مروان کا گزر ہوا، مروان نے کہا: کیاتم قبر ِانور کے پاس نماز پڑھ رہے ہو؟ آپ نے فرمایا: میں حضورِ اکرم سے محبت کرتا ہوں، یہ سن کر مروان نے ایک نہایت بری بات کہی اور وہاں سے چل پڑا،آپ اس کے پیچھے گئے اور ارشاد فرمایا: اے مروان! تو عادۃً بھی اور جان بوجھ کر بھی بےہودہ گفتگو کرنے والا ہے۔([xix])

رہائش و وفات: وادی قُری میں حضرت اسامہ رضیَ اللہ عنہ کی کچھ جائیداد تھی جہاں آپ جایا کرتے تھے([xx])آپ نے شہر دمشق کے گرد و نواح میں ایک بڑی بستی مِزَّہ میں رہائش رکھی پھر وہاں سے مدینے اور شام کے درمیان وادیِ قُّریٰ میں سکونت پذیر ہوگئے پھر مدینے تشریف لے آئے، 54 ہجری (مدینے سے 3 میل دور) مقام جُرْف میں آپ نے وصال فرمایا۔([xxi])

مرویات:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہما سے 128 احادیث مروی ہیں جن میں سے 15 بالاتفاق بخاری و مسلم میں ہیں جبکہ انفرادی طور پر ایک حدیث بخاری میں اور دو حدیثیں مسلم شریف میں ہیں۔ ([xxii])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ،کراچی)



([i])سیر اعلام النبلاء، 4/120

([ii])مراٰۃ المناجیح،6/505

([iii])تاریخ ابن عساکر، 4/249

([iv])بدر المنير لابن ملقن، 9/698

([v])سیر اعلام النبلاء، 4/120

([vi])تاریخ ابن عساکر، 4/249

([vii])فیضانِ صدیق اکبر، ص 350

([viii])بخاری، 2/306، حدیث: 2988 ملخصاً

([ix])بخاری 1/188، حديث: 505 ملخصاً

([x])فتاویٰ رضویہ، 21/437بتغیر

([xi])سیر اعلام النبلاء، 4/121۔بخاری، 1/563، حدیث: 1686

([xii])سیر اعلام النبلاء، 4/119-کنز العمال، جز5، 3/241، حدیث:14062

([xiii])سیر اعلام النبلاء، 4/121- البدایۃ و النہایۃ، 5/562

([xiv])تاریخ ابن عساکر، 2/60۔ 8/70

([xv])ترمذی، 5/445، حدیث: 3839-اسد الغابہ، 1/102

([xvi])مستدرک، 4/780، حدیث:6590

([xvii])سیر اعلام النبلاء، 4/124، 125

([xviii])احمد، 8/174، حدیث: 21803

([xix])سیر اعلام النبلاء، 4/122-مطالب العالیہ، 7/274،حدیث:2733

([xx])سیر اعلام النبلاء، 4/125

([xxi])الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 1/203

([xxii])سیر اعلام النبلاء، 4/125


Share