روشن ستارے
حضرت عبد اللہ بن حُذَافَہ
*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء
حجۃُ الوَداع کے موقع پرمِنیٰ میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عبداللہ بن حُذَافَہ رضی اللہُ عنہ کو ایک بات لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا تو وہ جگہ جگہ سے گزرتے ہوئے یہ اعلان کرتے جاتے: (ذی الحجہ کے 10، 11، 12، 13 ) ان دنوں میں روزہ مت رکھو کیونکہ یہ کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! حضرت ابوحذافہ عبدُاللہ بن حُذافَہ سہمی رضی اللہُ عنہ قدیمُ الاسلام صحابی ہیں([2]) آپ حبشہ کی جانب دوسری ہجرت میں اپنے بھائی حضرت قیس کے ہم سفر رہے([3]) آپ بدری صحابی ہیں یا نہیں اس بات میں اختلاف ہے([4]) اس کے علاوہ اُحد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں شرکت کی([5]) سن 7ھ میں آپ نے سفیرِ مصطفےٰ بن کر خط مبارک شاہِ ایران کسریٰ کے دربار میں پہنچایا،([6]) آپ کا شمار فتحِ مصر کے مجاہدین میں ہوتا ہے([7]) حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ نے آپ کو اسکندریہ (مصر) میں اپنا نائب مقرر کیا۔([8])
بارگاہِ رسالت سے اصلاح: ایک مرتبہ آپ رضی اللہُ عنہ نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے قراءت کرنے لگے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابنِ حذافہ! تم مجھے مت سناؤ، اللہ کو سناؤ۔([9])
ملکِ روم کے قیدی بنے: 19ھ میں رومیوں نے آپ رضی اللہُ عنہ کو گرفتار کر لیا تھا۔([10]) واقعہ کچھ یوں ہے: ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے ملکِ روم کی جانب ایک لشکر بھیجا،([11]) دورانِ جنگ آپ رضی اللہُ عنہ نے ایک رومی کمانڈر کو قتل کردیا پھر اسی کے گھوڑے پر سوار ہوکر میدانِ جنگ میں تھے کہ آپ کا سامنا ایک اور رومی کمانڈر سے ہوا تو اس نے اپنے مقتول ساتھی کا گھوڑا پہچان لیایہ دیکھ کر وہ آپ کی طرف لپکا وہ پہاڑ کی طرح سخت جان تھا اس نے آپ کو اپنے آپ سے چمٹالیا اور کھینچتا ہوا اپنے لشکر میں لے گیاوہاں آپ کو زنجیروں سے باندھ دیا گیا([12]) اور مار مار کر بےہوش کردیا گیا پھر قیدی بنا کرقسطنطنیہ میں بادشاہ کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیج دیا کہ یہ محمد عربی کے ساتھی ہیں۔([13]) بادشاہ نے آپ کو تکالیف دینے کا حکم دیا آپ نے ان تکالیف پر صبر کیااس کے بعد آپ کو ایک کمرے میں بند کردیا اور سامنے شراب اور سُؤر کا گوشت ڈال دیا تین دن گزر گئے لیکن آپ نے اس میں سے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ سپاہیوں نے بادشاہ کو خبر دی تو بادشاہ نے کہا: اسے وہاں سے نکال لو ورنہ وہ وہیں مرجائے گا۔([14])
دوسری طرف حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے آپ کی رہائی کےلئے شاہِ روم کے نام ایک خط لکھا، بادشاہ نے خط پڑھا (تو اسے آپ کی اہمیت اور قدرو منزلت کا اندازہ ہوا ) پھر آپ کو دربار میں طلب کیا، آپ فرماتے ہیں: میں وہاں پہنچا تو بادشاہ کے سر پر تاج تھا اور چاروں طرف سپاہی تھے میں اس کے سامنے کھڑا ہوگیا، اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: قریش قبیلہ کا ایک مسلمان ہوں، پوچھا: تمہارا تعلق تمہارے نبی کے گھر سے ہے؟ میں نے کہا: نہیں، بادشاہ بولا: تم ہمارے دین پر آجاؤ میں اپنے کسی کمانڈر کی بیٹی سے تمہاری شادی کروادوں گا،میں نے کہا: خدا کی قسم! میں دینِ اسلام کوکبھی بھی نہیں چھوڑوں گا، اس نے کہا: ہمارا دین قبول کرلو میں تمہیں بہت سارا مال، لونڈی غلام اور ہیرے دوں گا۔ پھر کچھ جواہرات منگوائے اور کہا: میرے دین میں آجاؤ یہ سب تمہیں مل جائیں گے، میں نے کہا: نہیں، اگر تم مجھے اپنی اور اپنی قوم کی جائیداد بلکہ اپنی ملکیت کی ہر ہر چیز بھی دوگے توبھی دینِ اسلام نہیں چھوڑوں گا۔ اس نے کہا: میں تمہیں بری موت ماروں گا، میں نے کہا: تم میرے ٹکڑے کر دویا مجھے آگ میں جلادو میں اپنا دین نہیں چھوڑوں گا، یہ سُن کر بادشاہ غصے میں آ گیا([15]) اور کہنے لگا: اب میں تمہیں قتل کردوں گا، میں نے کہا: تم یہی کرسکتے ہو۔ پھر آپ کو تختہ پر چڑھا دیا گیا تو بادشاہ نے (آہستہ سے) تیر انداز سے کہا: تیر بدن کے قریب پھینکنا (تیر انداز نے تیر جسم کے قریب پھینکے لیکن آپ بالکل بھی خوف زدہ نہ ہوئے) بادشاہ نے پھر عیسائی بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے انکار کردیا آخر کار آپ کو تختہ سے نیچے اتار لیا گیا۔([16])
ایک روایت کے مطابق بادشاہ نے تانبے کی گائے منگوائی اور اس میں تیل بھر کر جوش دینے کا حکم دیا،پھر (جب تیل کھولنے لگا تو ) بادشاہ نے ایک مسلمان قیدی کو بلایا اور اسے عیسائی بننے کاکہا لیکن اس مسلمان نے بھی انکار کردیایہ دیکھ کر بادشاہ نے اسے گائے میں ڈلوا دیا فوراً ہی (گوشت پوست سب جل گیا اور) ہڈیاں ظاہر ہوگئیں۔ بادشاہ نے آپ سے پھر کہا: عیسائی بن جاؤ ورنہ میں تمہیں بھی اس گائے میں پھینک دوں گا۔ آپ نے کہا: میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا؟ بادشاہ نےآپ کو گائے میں ڈالنے کا حکم دے دیا، سپاہیوں نے آپ کو پکڑا (اور گائے کے قریب لائے) تو آپ رونے لگے،سپاہی کہنے لگے: بس! گھبرا گئے اور رورہے ہو، بادشاہ نے کہا: انہیں گائے سے پیچھے کردو۔ یہ دیکھ کر آپ نے کہا: میں گائے میں ڈالے جانےکے خوف اور ڈر سے نہیں رویا، میں تواس وجہ سے رویا ہوں کہ میرے پاس یہی ایک جان ہے جو ابھی راہِ خدا میں جسم سے جدا ہوجائے گی میں تو اس بات کو پسند کررہا تھا کہ ہر بال کےبدلےایک ایک جان ہوتی پھر تم مجھ پر غلبہ پالیتے اور ہر جان کے ساتھ یہی سلوک کرتے۔ آپ کی یہ بات سُن کر بادشاہ حیرت زدہ ہوگیا اور آپ کو آزاد کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوگئی لہٰذا کہنےلگا:تم میرا ماتھا چوم لو میں تمہیں آزاد کردوں گا، آپ نے منع کردیا، بادشاہ نے کہا: نصرانی ہوجاؤ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کردوں گا اور اپنی آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا، آپ نے اب بھی انکار کیا، آخرکار وہ کہنے لگا: میری پیشانی چوم لو، میں تمہارے ساتھ 80 مسلمان قیدیوں کو آزاد کردوں گا، آپ نےکہا: ہاں! یہ کرسکتا ہوں، پھرآپ نے اس کے ماتھے کو چوم لیا، بادشاہ نےاپنا وعدہ پورا کیا اور آپ کے ساتھ 80مسلمان قیدیوں کو آزاد کردیا۔([17])
بعض روایتوں میں 100 کا اور بعض میں 300 قیدیوں کا ذکر ہے اور ساتھ میں آپ کو 30 ہزار دینار، 30 خادم اور 30 خادمائیں تحفہ میں بھی دیں۔ آپ آزاد ہونے والے مسلمانوں کو لےکر بارگاہِ فاروقی میں حاضر ہو ئے اور پوری تفصیل کہہ سنائی، حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ حضرت اِبنِ حُذافہ کا ماتھا چومے اور میں سب سے پہلے اِبنِ حُذَافَہ کا ماتھا چوموں گا، یہ کہہ فاروقِ اعظم نے آپ کا ماتھا چوم لیا([18]) یہ دیکھ کر دیگر مسلمان بھی کھڑے ہوکر آپ کے سر کو چومنے لگے۔([19])(بعد میں) بعض لوگ آپ سے مزاح کیا کرتے کہ آپ نے ایک کافر کا ماتھا چوما ہے، تو آپ یوں فرما دیتے کہ اس ایک چومنے کے بدلےاللہ نے 80 مسلمانوں کو آزادی دلوائی ہے۔([20])
اللہ اللہ! رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پانے والے صحابۂ کرام کا ایمان کیسا مضبوط ہوا کرتا تھا کہ مال و زَر، جائیداد، سلطنت اور حسین عورتوں سے نکاح کی پیشکش بھی ہوتی تو ایمان کے مقابلے میں کسی پیشکش کو قبول نہ کرتے اور ایمان پر ثابت قدم رہتے۔ اللہ کریم ! صحابہ کے ایمان کے صدقے ہمارے ایمان کو بھی مضبوط فرمائے، اٰمین۔
وفات: آپ رضی اللہُ عنہ کا انتقال خلافتِ عثمانی تقریباً 33ھ مصر میں ہوا، اور یہیں آپ کی تدفین ہوئی۔([21])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی
Comments