Book Name:Aqal Mand Mubaligh
ہے ، زکوٰۃ رَبّ کا رستہ ہے ، حج رَبّ کا رستہ ہے ، سُنّتِ مصطفےٰ رَبّ کا رستہ ہے ، حُسْنِ اَخْلاق رَبّ کا رستہ ہے ، غرض؛ تمام نیکیاں ، پُورے کا پُورا دِین ، یہ سب کچھ رَبّ ہی کا رستہ ہے۔ لہٰذا سارِی دُنیا کے انسانوں کو بُلانا ہے ، کس طرف؟ اللہ پاک کے دِین کی طرف۔
اب تیسرا سُوال ذہن میں اُٹھتا ہے : کیسے بُلانا ہے؟ بُلانے کے بھی تو کئی طریقے ہوتے ہیں : کبھی کارڈ بھیج کر بُلایا جاتا ہے ، کبھی پیار سے بُلایا جاتا ہے ، کبھی ڈانٹ کر بُلایا جاتا ہے ، کئی طریقے ہیں بُلانے کے۔ ساری دُنیا کے انسانوں کو اللہ پاک کے دِین کی طرف بُلانا ہے ، کیسے بُلائیں؟ اس کے اللہ پاک نے دو طریقے ارشاد فرمائے :
(1) : بِالْحِكْمَةِ (حکمت کے ساتھ) (2) : وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (اچھی نصیحت سے)
امام رازی ، عَلَّامہ بیضاوی اور دیگر کئی مفسرینِ کرام نے فرمایا : اس آیت میں نیکی کی دعوت دینے کے انداز کو تقسیم کیا گیا ہے ، یہ تقسیم لوگوں کی ذِہنی صلاحیت (Mindset) کے اعتبار سے ہے۔ ([1]) یعنی مُعَاشرے کا وہ طبقہ جنہیں ہم پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں ، مثلاً ڈاکٹر ہیں ، انجینئر ہیں ، وکیل ہیں ، یہ تمام جو لوگ ہیں ، یہ اعلیٰ ذِہنی صلاحیات کے مالِک ہیں ، انہیں نیکی کی دعوت دینے کا انداز اَور ہو گا ، اور مُعَاشرے کا وہ طبقہ جو اَن پڑھ ہیں یا کم پڑھے لکھے ہیں ، ان کو نیکی کی دعوت دینے کا انداز کچھ اور ہو گا۔ لہٰذا جو بھی نیکی کی دعوت دینے والا ہے ، اسے چاہئے جسے نیکی کی دعوت دے رہا ہے ، اس کی ذِہنی صلاحیات کا لحاظ رکھے اور ہر ایک کے ساتھ اُس کی عقل کے مطابق کلام کرے۔ سرکارِ عالی وقار ، مکی مدنی تاجدار صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا کہ لوگوں سے اُن کی عقلوں کے