Book Name:اِنْ شَآءَاللہ Kehnay Ki Barkaten

رہے تھے ،  کنجوسی کا مُظَاہرہ کر رہے تھے اور کنجوسی کا نتیجہ ذِلّت ہی نکلتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک اَور غلطی بھی کی ، انہوں نے خُود پر بھروسہ کیا ، اللہ فرماتا ہے :

وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ(۱۸)  (پارہ : 29 ، القلم : 18)

ترجمہ : اَور اِنْ شَآءَ اللہ نہیں کہہ رہے تھے

یعنی یہ اپنے منصوبے کو لے کراتنے پُرجوش اور بااعتماد تھے کہ انہوں نے اِنْ شَآءَاللہ بھی نہیں کہا ، اپنے اُوپر اعتماد کیا ، اپنی عقل پر ، اپنی تدبیر پر ، اپنے منصوبے پر بھروسہ کیا ، صبح کو جلدی جلدی اُٹھے ، منہ اندھیرے ہی باغ کی طرف چل دئیے ، راستے میں ایک دوسرے کو کہتے جا رہے تھے : آج ہر گز کوئی مسکین ، فقیر تمہارے باغ میں آنے نہ پائے۔ مگر آہ! جب یہ باغ کے پاس پہنچے تو دیکھا باغ جَل چکا ہے ، ایک لمحے کے لئے تو یہ سکتے میں آگئے ، انہوں نے سمجھا؛ شایداندھیرے کی وجہ سے ہم راستہ بھٹک گئے ہیں ، کسی اور باغ میں آگئے ہیں ، یہ ہمارا باغ نہیں ہے لیکن جب غور سے دیکھا تو یہ ان کا ہی باغ تھا۔ ([1])

کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خُدا نے چاہا

جو اختیارِ بَشَر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خُدا ہے

یہ ہے انسان کی تدبیر ، یہ ہیں انسان کی منصوبہ بندیاں ،  ہوتا وہی ہے جو منظورِ خُدا ہوتا ہے۔ اے عاشقانِ رسول! جب معاملہ ایسا ہے ، ہماری تدبیریں بھی ناقص ، ہماری عقل بھی ناقِص ، ہمارے منصوبے بھی ناقِص ، ہم جوچاہے منصوبے بنا لیں ، تقدیر غالب آتی ہے تو غالب آکر ہی رہتی ہے ، سب تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں ، منصوبے ناکام ہو جاتے ہیں ، عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ اب بتائیے! ہمارے پاس کیا بچتا ہے؟ ہم اپنے مقصد میں


 

 



[1]...تفسیر صراط الجنان ، پارہ : 29 ، سورۂ القلم ، زیرِ آیت : 17 تا 32 ، جلد : 10 صفحہ : 293 تا296 ماخوذاً۔