Book Name:اِنْ شَآءَاللہ Kehnay Ki Barkaten
طبیعت ہے ، توکل کی کمی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے : لَاصَفَرَ صَفَر کچھ نہیں۔ ([1]) یعنی لوگوں کا ماہِ صَفَر کو منحوس سمجھنا غلط ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! بدشگونی عالمی بیماری ہے اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بڑے بڑے ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک بھی اس بیماری کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں ، مختلف ملکوں میں لوگوں نے عجیب عجیب وَہْم اپنے دِل میں پالے ہوئے ہیں ، مثلاً* صبح صبح کسی اندھے سے ملاقات ہو گئی * ایک آنکھ والا آدمی سامنے آگیا * کوئی لنگڑا مِل گیا * کالا کَوَّا یا بِلّی سامنے سے گزر گئی * کام پر جاتے وقت راستے میں کوئی بُری آواز سُن لی تو بدشگونی لی جاتی ہے کہ اب میرا کام نہیں ہو سکے گا * دِنوں سے بدشگونی لی جاتی ہے * ایمبولینس کی آواز سے* فائر بریگیڈ کی آواز سے بدشگونی لی جاتی ہے * کبھی اخبارات میں شائع ہونے والے ستاروں کے کھیل سے اپنی زندگی کو غمگین بنا لیا جاتا ہے * بعض لوگ مہمان کی رخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو دینے کو منحوس سمجھتے ہیں * سیدھی آنکھ پھڑکے تو یقین کر لیا جاتا ہے کہ کوئی مصیبت آئے گی * عید جمعہ کے دِن ہو جائے تو اسے حکومتِ وقت پر بھاری سمجھتے ہیں * بلّی کے رونے کی آواز کو منحوس سمجھا جاتا ہے * مُرغَا دِن کے وقت اذان دے تو بدفالی میں مبتلا ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اسے ذبح کر ڈالتے ہیں * دُکان سے پہلا گاہک سودا لئے بغیر چلا جائے تو دکاندار اس سے بدشگونی لیتا ہے * نئی نویلی دلہن گھر آنے پر گھر میں کوئی بُرا واقعہ ہو جائے تو اس دلہن کو منحوس سمجھا جاتا ہے * جوانی میں بیوہ