Book Name:اِنْ شَآءَاللہ Kehnay Ki Barkaten

اُمِّید پر اِنْ شَآءَ اللہ کہنا ضروری ہے ورنہ وہ اُمِّید پُوری نہ ہو گی۔ اِنْ شَآءَ اللہ کہنے میں عقیدے اور عمل کی اِصْلاح ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِنْ شَآءَ اللہ کہنے والا اپنی طاقت پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ رَبّ کی مدد پر بھروسہ کرتا ہے۔

ہاں! خیال رہے! صِرْف جائِز اور بہتر باتوں پر اِنْ شَآءَ اللہ کہنا چاہئے ، حرام چیزوں ،  بلاؤں اور آفتوں پر اِنْ شَآءَ اللہ نہیں کہا جائے گا۔ مثلاً یہ کہو : اِنْ شَآءَ اللہ میں نماز پڑھوں گا ، یہ نہ کہو کہ اِنْ شَآءَ اللہ میں چوری کروں گا۔ یوں کہو : اِنْ شَآءَ اللہ بیمار کو آرام ہو جائے گا۔ یہ نہ کہو : اِنْ شَآءَ اللہ بیماری پھیلے گی کہ بیماری بَلا اور آفت ہے ، ایسا کوئی جملہ بولنا ہی پڑے تو لفظ  “ اندیشہ “ استعمال کرنا چاہئے ، مثلاً یُوں کہا جائے : مجھے اندیشہ ہے کہ وباء پھیلے گی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ طوفان آئے گاوغیرہ۔ ایسی جگہ اِنْ شَآءَ اللہ کہنا درست نہیں۔ ([1])  

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب                                                                 صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

وَہْم  پرستی سے نجات کا رستہ

پیارے اسلامی بھائیو!  اِنْ شَآءَ اللہ کی بہت برکتیں ہیں ، اگر ہم اِنْ شَآءَ اللہ کا مفہوم دِل میں بٹھا لیں یعنی دِل میں پَکّا یقین کر لیں کہ اگر اللہ پاک نے چاہا تو یہ کام ہو جائے گا ورنہ نہیں ہو گا ، اس یقین کے ساتھ اگر ہر کام میں اِنْ شَآءَ اللہ کہنے کی عادت ہو جائے تو اس کی برکت سے ہم وَہْم پرستی ، بدشگونی اور بے شُمار جاہِلانہ حرکات سے بچ جائیں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی اَہَم کام کے لئے گھر سے نکلا اور اُس نے معنی ذہن میں رکھ کر کہا : اِنْ شَآءَ اللہ میں فُلاں کام ضرور کر کے آؤں گا۔ اب راستے میں کالی بِلِّی اس کا راستہ


 

 



[1]...تفسیر نعیمی ، پارہ : 1 ، سورۂ بقرہ ، زیرِ آیت : 70 ، جلد : 1 ، صفحہ : 467 ، خلاصۃً۔