Book Name:اِنْ شَآءَاللہ Kehnay Ki Barkaten
شِرْکٌ ، اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ بدفالی لینا شرک ہے ، بدفالی لینا شرک ہے ، بدفالی لینا شرک ہے ، پھر فرمایا : ہم میں سے ہر شخص کو ایسا (یعنی بدشگونی جیسا) خیال آجاتا ہے مگر اللہ پاک تَوَکُّل کے ذریعے اس خیال کو دُور فرمادیتا ہے۔ ([1])
اس حدیثِ پاک کے تحت عُلَمائے کرام فرماتے ہیں : زمانۂ جاہلیت میں لوگ بدفالی لیا کرتے تھے ، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی کے تقاضے پر عمل کرنے سے ان کو نفع حاصِل ہوتا ہے مثال کے طور پر کوئی شخص کام کے لئے نکلا اور راستے میں بلّی نے اس کا راستہ کاٹ لیا ، اب اگر یہ واپس لوٹ آیا تو زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح کرنے سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے ، اس لئے حدیثِ پاک میں بدشگونی کو شرک قرار دیا گیا ، اگر کوئی بندہ صِرْف بدشگونی لے اور ساتھ میں یہ عقیدہ بھی رکھے کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ پاک چاہتا ہے ، اس کے عِلاوہ دُنیا کی کوئی طاقت اللہ پاک کی مَرْضِی کے خِلاف کچھ نہیں کر سکتی ، اس صورت میں بدشگونی لینا شِرْکِ خَفِی (یعنی گُناہ کا کام ہے) اور اگر کوئی بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ مثلاً ستارے خود اپنی طاقت سے ، اللہ پاک کی مرضی کے خِلاف بھی اَثَر کر سکتے ہیں ، اس صورت میں یہ بدشگونی لینا شرکِ جَلِی ہےجو کہ کفر ہوتا ہے۔ ([2]) * سرکارِ عالی وقار ، مکی مدنی تاجدار صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وسَلَّم نے فرمایا : مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ شَیْءٍ فَقَدْ قَارَفَ الشِّرْکَ جو شخص بدشگونی کی وجہ سے کسی چیز سے رُک جائے وہ شرک میں آلودہ ہو گیا۔ ([3])