Book Name:Takabbur Aur Uski Alamaat
کی توفیق بھی نہیں ملتی۔ تو جب تکبر کی اس قدر تباہ کاریاں ہیں اور اس کا انجام بڑا بھیانک ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اس منحوس آفت سے بچتے اور دوسروں کو بچاتے رہیں ، معاذَاللہ اگر کوئی اس بیماری میں مبتلا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ جتنی جلدی ہوسکے اس بُری بیماری سے اپنے آپ کو فوراً علیحدہ کرلے ، جتنا عرصہ تکبر میں مبتلا رہا ، ربِّ کریم کی بارگاہ میں اس سے سچے دل سے توبہ بھی کرے اور آئندہ تکبر سے بچنے کے لئے تکبر کا علم بھی سیکھتا رہےکیونکہ تکبر کا علم سیکھنا اہم فرائض میں شامل ہے ، اعلیٰ حضرت ، امامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ نمبر624 پر لکھتے ہیں : مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ (یعنی باطنی ممنوعات مثلاً) تکبر و ریا و عجب و حسد وغیرہا اور ان کے معالجات (یعنی عِلاج)کہ ان کا علم (یعنی جاننا)بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ ([1])
مگر افسوس!دنیاوی علوم کے مقابلے میں ہماری دینی معلومات بہت کم ہوتی ہے پھر اُن میں سے درست کتنی ہوتی ہیں؟ حالانکہ دُنیوی معلومات کی کثرت پر ہمیں آخرت میں کوئی جزاملے گی نہ کم ہونے پر کوئی سزا! البتّہ بنیادی ضروری دینی معلومات نہ ہونا نقصانِ آخرت کا باعث ہے کیونکہ دُنیا ئے فانی میں کی گئی نیکیاں جہانِ آخرت کی آباد کاری جبکہ گناہ بربادی کا سبب جبکہ نیکیوں اور گناہوں کی پہچان کے لئے علمِ دین کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم علمِ دین بھی ضرور حاصل کریں تاکہ ہماری آخرت