Book Name:Khof-e-Khuda Hasil Karnay Kay Tariqay
کی سُنّت ہے ، خوفِ خُدا میں رونا نیک لوگوں کی علامت ہے بلک اگر ہم غور کریں تو خوفِ خُدا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے ، دیکھئے! ہم اللہ پاک پر اس کی تمام صفات کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں : اٰمَنْتُ بِاللہِ بِجَمِیْعِ صِفَاتِہٖ(میں اللہ پاک پر اس کی تمام صِفَات کے ساتھ ایمان لایا)۔ اللہ پاک کی صِفَات میں ، ایک صِفَّت اَلصَّمَدْ بھی ہے یعنی اللہ پاک بےنیاز ہے ، اللہ پاک کسی کا محتاج نہیں ، جب ہم اللہ پاک کی اس صِفَّت پر ایمان لاتے ہیں تو اس کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی بےنیازی سے ڈریں ، بالفرض ہمارے پاس نیکیاں ہیں ، ساری ساری رات سجدے کرتے ہیں ، سارا دِن روزے رکھتے ہیں ، ساری زندگی ایک بھی گُنَاہ نہیں کیا ، تب بھی جتنی نعمتیں اللہ پاک نے ہمیں عطا فرمائی ہیں ، اُن میں سے ایک نعمت کا بھی پُورا پُورا حق کب ادا ہوا؟ اللہ پاک بےنیاز ہے ، اگر روزِ قیامت ہماری ساری نیکیوں کو ایک پلڑے میں رکھ کر اللہ پاک کی صِرْف ایک نعمت کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا گیا اور ساری زِندگی کی نیکیاں اُس ایک نعمت کا بدلہ بھی نہ بَنْ سکیں اور یقیناً بدلہ بن بھی نہیں سکیں گی ، ذرا سوچئے! اگر یُوں حِسَاب لے لیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا؟
معلوم ہوا؛ جب ہم اللہ پاک کو بےنیاز مانتے ہیں تو یہ ماننا ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اللہ پاک کی بےنیازی سے ڈریں۔
اسی طرح اللہ پاک کی ایک صِفَّتقَہَّار بھی ہے یعنی اللہ پاک غضب فرمانے والا ہے ، اللہ پاک قہر فرمانے والا ہے ، اللہ پاک کی صِفَّتِ قَہَّار پر ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اللہ پاک سے ڈریں ، اللہ پاک کے قہر سے ، اللہ پاک کے غضب سے ، اللہ پاک کی ناراضِی سے خوف کریں۔ اللہ پاک کی ان صفات پر جتنا ایمان کمزور ہوتا جائے گا ، خوفِ