حضرت حبیب عجمی/حضرت خواجہ حسن بصری علیہ رحمہ

ربیعُ الآخِر اسلامی سال کا چوتھا مہینا ہے۔ اس میں جن اَولیائے کرام اور عُلَمائے اسلام کا وصال ہوا، ان میں سے 16 کا مختصَر ذکر ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ ربیعُ الآخِر 1439ھ کے شُمارے میں کیا گیا تھا۔ مزید کا تعارف ملاحَظہ فرمائیے:اولیائے کرام رحمہم اللہ السَّلام (1)قطبِ وقت حضرتِ سیّدُنا حبیب عَجَمی فارسی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت بصرہ (عراق) میں ہوئی اور3ربیعُ الآخِر156ھ کو وصال فرمایا۔ مزار شریف محلہ بشار بغداد میں ہے۔ آپ مشہورتا بِعی بزرگ حضرت خواجہ حسن بَصَری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے شاگرد و خلیفہ، مشہور ولیِ کامل، مُستجابُ الدُّعاء، صاحبِ کرامت اور عابد و زاہد ہیں۔(شانِ اولیاء، ص63) (2)حضرتِ سیّدُنا امام ابوعثمان سعید حِیْری نیشاپوریعلیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 203 ھ کو ’’رے‘‘ (موجودہ تہران) ایران میں ہوئی اور22ربیعُ الآخِر 298 ھ کو وصال نیشاپور(صوبہ خراسان رضوی، ایران) میں فرمایا۔آپ امامِ زمانہ، محدّثِ وقت، صوفیِ باصفا اور اکابر اولیا سے ہیں۔ (تاریخ الاسلام للذہبی،ج 22،ص149،152، طبقاتِ امام شعرانی، جزء:1، ص123 ) (3)خواجۂ چشت حضرتِ سیّدُنا خواجہ ابواسحاق شرفُ الدّین شامی عَلَوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت عَکّہ (اب یہ فلسطین کا ایک شہرہے) شام میں ہوئی۔ یہیں آپ نے 14 ربیعُ الآخِر343ھ کو وصال فرمایا۔ آپ علومِ ظاہری و باطنی کے جامع، زُہد و تقویٰ میں مشہور، صاحبِ کرامت اور سلسلۂ چشتیہ کے اہم ترین شیخ ہیں۔(عباد الرحمٰن،ج 1،ص90، خزینۃ الاصفیاء،ج 2،ص37،38)  (4)بانیِ سلسلۂ قادریہ، سردارِ اولیا، غوثُ الاعظم حضرتِ سیّد محیُ الدّین ابو محمد عبدالقادر جیلانی حَسَنی حُسینی حنبلی علیہ رحمۃ اللہ الوَلی کی ولادت 470 ھ کو جیلان (ایران) میں ہوئی اور 11ربیعُ الآخِر 561ھ کو بغداد شریف (عراق) میں وصال فرمایا، آپ جیّد عالمِ دین، بہترین مدرّس، پُر اثر واعظ، مصنّفِ کتب، فقہا و محدّثین کے استاذ، شیخُ المشائخ اور مؤثّر ترین شخصیت کے مالک ہیں۔آپ کا مزارِ مبارک دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے منبعِ انوار و تجلّیات ہے۔(بہجۃ الاسرار، ص171، طبقاتِ امام شعرانی، جزء:1، ص178، مرآۃالاسرار،563،571)  (5)سلطانُ التّارکین، حضرت صوفی حمیدُالدّین سُوالی ناگوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت سُوال(مضافاتِ اجمیر صوبۂ راجستھان) ہند میں ہوئی۔ 29 ربیعُ الآخِر 673ھ کو وصال فرمایا، مزارِ مبارک ناگور شریف (صوبۂ راجستھان) ہند میں ہے۔ آپ تلمیذ و خلیفہ خواجہ غریب نواز، صوفیِ کامل، مصنّفِ کتب اور اکابر اولیا میں سے ہیں۔(تحفۃ الابرار، ص89،90، مرآۃ الاسرار، ص677،682، تذکرہ علمائے ہند، ص170) (6)استاذِ صاحبِ کنزالعُمّال، حضرتِ سیّدنا ابوالمعارف قطبُ الدّین مصطفےٰ بن کمالُ الدّین بَکْری دِمَشقی خَلْوتی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1099ھ دِمَشق میں ہوئی اور 18ربیعُ الآخِر 1162 ھ کو وصال فرمایا، مزارِ مبارک قبرستان مُجَاوِرین قَرافۃُ الکبریٰ قاہرہ مصر میں ہے۔ آپ استاذُ العُلَماء، دو سو سے زائد کتب کے مصنّف، سلسلہ ٔخلوتیہ کے مرشدِ کبیر، شیخُ الصّوفیاء، صاحبِ کشف و کرامات اور فقہائے احناف سے تھے۔ اَلْوَرْدُ الْمَنْهُوْلُ الْاَصْفٰى فِىْ مَوْلِدِالرَّسُوْل آپ کی کتاب ہے۔(الشیخ مصطفیٰ البکری حیاتہ وآثارہ،جامع کراماتِ اولیا،ج 3،ص644،624، جہان امام ربانی،ج 6،ص50) (7)بانیِ سلسلۂ نقشبندیہ مجدّدیہ مرادیہ، شیخُ الاسلام حضرتِ سیّدُنا محمد مرادبن علی بُخاری اُزبکی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت سمرقند اُزبکستان میں 1050ھ کو ہوئی اور 12 ربیعُ الآخِر 1132ھ کو وصال فرمایا، مزارِ مبارک مدرسہ درسخانہ محلّہ نیشانجی پاشا (استنبول) ترکی میں ہے۔ آپ فقیہِ حنفی، محدّثِ وقت ،جامع علومِ عقلیہ ونقلیہ، مصنّفِ کتب، بانیِ مدرسہ نقشبندیہ بَرَّانیہ و مرادیہ دِمَشق اور صاحبِ کرامات  اولیا سے ہیں۔(معجم المؤلفین،ج 3،ص398،840،الأعلام للزركلی،ج 7،ص 199) (8)بانیِ سلسلہ معمرہ منوّریہ، حضرتِ سیّدُنا شاہ منوّر علی عمر دراز قادری بغدادی الٰہ آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کی ولادت 491ھ کو بغداد (عراق) میں ہوئی اور (708سال کی) طویل عمر پاکر 15 ربیعُ الآخِر 1199ھ کو الٰہ آباد (یوپی) ہند میں وصال فرمایا۔ آپ شیخ ضیاءُ الدّین ابونجیب عبدالقاہر سہروردی کے بھانجے، حضور غوثِ اعظم کے بزرگ ترین خادم، حضرتِ سیّد کبیرُالدّین دولہ کے خلیفہ اور اکابر اولیائے ہند سے ہیں۔(تاریخ مشائخ قادریہ،ج 2،ص192تا197، حقیقت گلزار صابری، ص150) علمائے اسلام رحمہم اللہ السَّلام (9)مؤرّخِ اسلام حضرتِ سیِّدُنا عبدالملک بن ہِشام حِمْیَری  شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی بصرہ میں پیدا ہوئے اورقاہرہ مصر میں 13ربیعُ الآخِر 218ھ کو وصال فرمایا۔ آپ علمِ نسب و نحو کے امام، مؤرخ اور محدِّث تھے۔ اپنی کتاب اَلسِّیْرَۃُ النَّبَوِیَّۃ لِاِبْنِ ہِشَام کی وجہ سے مشہور ہوئے۔(وفیات الاعیان،ج 3،ص150) (10)حافظُ الحدیث ابنِ عبدُالبَرّابوعمر یوسف بن عبداللہ قُرْطُبی مالکی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادت 368ھ کو قُرْطُبہ (Córdoba) اُنْدَلُس (موجودہ اسپین Spain) میں ہوئی۔ 29یا 30ربیعُ الآخِر 463ھ کو وصال فرمایا، شاطِبہ (Xàtiva)، بَلَنْسِیَہ، اُنْدَلُس میں دفن کیا گیا۔ آپ مجتَہِدُالاسلام، محدثِ عصر، امامِ زمانہ، شیخِ علماءِ  اُنْدَلُس،قاضیِ اُشْبُونہ وشَنْترِین، مؤرخِ اسلام اور 27 سے زیادہ کتب کے مصنّف تھے۔ اَلْاِسْتِيْعَاب فِيْ مَعْرِفَةِ الْاَصْحَاب آپ کی مشہور کتاب ہے۔ (وفیات الاعیان،ج 5،ص428تا432) (11)قاریُ الہدایہ حضرت امام سراجُ الدّین عمر خیّاط حنفی مصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت محلہ حسینیہ قاہرہ مصر میں ہوئی اور ربیعُ الآخِر829ھ کو وصال فرمایا، تدفین حَوش الاَشرف برسبائی نزد جامعہ برقوقیہ قاہرہ مصر میں ہوئی۔ آپ حافظُ القراٰن، جامعِ منقول و معقول، استاذُالعُلَماء، فقیہِ حنفی، شیخِ طریقت تھے۔ فتاویٰ قاریُ الہدایہ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔(حدائق الحنفیہ،ص341، فتاویٰ قاری الہدایہ، ص6،11) (12)شیخُ الاسلام امام زینُ الدّین قاسم بن قُطْلُوبُغَا مصری حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 802 ھ کو قاہرہ مصر میں ہوئی اور یہیں 4ربیعُ الآخِر 879ھ کو وصال فرمایا، تدفین بابِِ مشہدِ قاہرہ میں ہوئی آپ حافظِ قراٰن، علومِ عقیلہ و نقلیہ میں ماہر، مؤرّخ، صاحبِِ لسان، 116کتب و رسائل کے مصنف، بہترین مناظر، حسناتِ دہر اور اکابر فقہائے احناف میں سے ہیں۔ اہم کتب میں تاجُ التَّراجم اور مجموعہ رسائل ہیں۔ (حدائق الحنفیہ، ص360، شذرات الذہب،ج 7،ص470) (13)عظیم حنفی فقیہ حضرت شیخ ابراہیم بن محمد حَلَبی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت تقریباً 866ھ حَلَب شمال مغربی شام میں ہوئی اور 10ربیعُ الآخِر 956ھ کو وصال فرمایا اور قسطنطنیہ میں دفن کئے گئے۔ آپ امام و خطیب جامع مسجدسلطان محمد فاتح (استنبول، ترکی) فقیہِ عصر، محدثِ زمانہ، کئی کتب کے مصنّف اور مشاہیر فقہائے احناف سے تھے۔ غُنْیَۃُ الْمُتَمَلِّی اور مُلْتَقَی الْاَبْحَر آپ کی تصانیف ہیں۔(حدائق الحنفیہ، ص400، وفیات الاخیار، ص13 ) (14)امام قطبُ الدّین محمد بن احمد نَہْرَوَانی ہندی مکی قادری حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 917ھ کو مرکزالاولیاء لاہور میں ہوئی۔ 26 ربیعُ الآخِر 990ھ کو مکۂ مکرمہ میں وصال فرمایا۔ آپ امامِ وقت، مفتیِ احناف مکّۂ معظّمہ، مدرِّس و خطیبِ حرم، مؤرّخِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر اور13سے زائد کتب کے مصنف تھے۔(حدائق الحنفیہ، ص522، دیوان الاسلام،ج 4،ص15، شذرات الذہب،ج8،ص420) (15)خلیفۂ اعلیٰ حضرت علّامہ شیخ جمال بن امیر بن حسین مالکی قادری علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کی ولادت 1285ھ کو مکّہ شریف میں ہوئی۔ وفات 19ربیعُ الآخِر 1349ھ کو فرمائی، مکّہ شریف میں دفن کئے گئے۔ آپ امام مالکی، مدرّسِ حرم، مصنّفِ کتب، جسٹس شَرْعی عدالت، رکنِ مجلس اعلیٰ محکمۂ تعلیم اور مُقَرِّظ ِاَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ و حُسامُ الْحَرَمَیْن تھے، آپ کی کتب میں ”اَلثَّمَرَاتُ الْجَنِیَۃ فِیْ الْاَسْئِلَۃِ النَّحْوِیۃ“ مشہورہے۔  

(مختصرنشرالنوروالزھر، ص163، اما م احمد رضا محدث بریلوی اور علماء مکۂ مکرمہ، ص 149تا151)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…رکن شوریٰ نگران  مجلس المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی                        


Share

حضرت حبیب عجمی/حضرت خواجہ حسن بصری علیہ رحمہ

ابو محمد حضرتِ سیّدنا سعید بن مُسَیَّب بن حَزْن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم جلیلُ القدر تابعی بزرگ، بہت بڑے عالم اور مدینے کے سات فُقَہَا میں سے ایک تھے۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی زندگی میں ہی فتوے دیا کرتے تھے۔ فاروقِ اعظم کے فیصلوں کے عالِم حضرت مَکْحول رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ’’میں نے طلبِ عِلْم میں تمام زمین چھان ماری لیکن حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے بڑا عالم نہیں پایا۔‘‘ آپ حلال و حرام کے سب سے زیادہ جاننے والے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی احادیث اور حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلوں کے سب سے بڑے عالِم تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز جب مدینہ شریف کے گورنر تھے تو کسی مُقدّمے کا فیصلہ اس وقت تک نہ فرماتے جب تک کہ اس کے متعلّق آپ سے نہ پوچھ لیتے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز نے ایک شخص کو آپ سے سوال کے لئے بھیجا تو وہ آپ کو بلا لایا، حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز نے بطورِ مَعْذِرت کہا کہ اس شخص سے غلطی ہوگئی ہے، اسے آپ کی مجلس میں سوال کے لئے بھیجا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز فرمایا کرتے تھے: مدینے میں کوئی ایسا عالِم نہیں جو اپنا علم خود میرے پاس لے کر نہ آتا ہو جبکہ حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا عِلْم میرے پاس لایا جاتا ہے۔ صحابیِّ رسول کے داماد حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہزادی آپ کے نِکاح میں تھیں۔ آپ کے والد اور دادا دونوں صحابیِ رسول تھے۔ آپ نے چالیس حج کئے اور 93ھ میں وصال ہوا، جس سال آپ نے دنیا سے کوچ کیا اس سال کو فُقَہا کا سال کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال میں بکثرت فُقَہا  کا انتقال ہوا۔ ذریعۂ آمدن آپ نذرانوں کو قبول نہیں فرماتے تھے، آپ کے پاس 400 دینار کا سَرمایہ تھا جس سے زیتون کے تیل (Olive Oil) کی تِجارت کرتے تھے۔ (تہذیب الاسماء واللغات،ج1،ص214،213، سیر اعلام النبلاء،ج5،ص219، مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص278) اچّھی نیّت سے مال جمع کرنے کی ترغیب ٭ آپ فرماتے ہیں: اس آدمی میں کوئی بَھلائی نہیں جو اپنی حلال کمائی اس نیّت سے جمع نہ کرے کہ اس سے خود پر واجب حُقوق ادا کرے اور لوگوں سے سوال کرنے سے بچے۔ ٭ایک موقع پر فرمایا: اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو صلۂ رحمی کرنے، امانت ادا کرنے اور مخلوق کی محتاجی سے بچنے کے لئے مال سے مَحبت نہ کرے۔(حلیۃ الاولیاء،ج 2،ص197، رقم:1918)تِجارت کے ساتھ ساتھ نمازِ باجماعت کی پابندی میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تاجر تھے، اِس کے باوجود آپ مسجد میں اذان سے پہلے حاضر ہوتے اور جماعت کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا فرماتے تھے جبکہ ہمارا معاملہ اس کے اُلٹ ہے، تاجروں کی ایک تعداد تجارت کے باعث جماعت تو جماعت نماز تک قضا کردیتی ہے، آئیے اس حوالے سے حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے معمولات خود آپ ہی کی زَبانی مُلاحَظَہ کرتے ہیں: ٭40سال سے میرا یہ معمول ہے کہ کبھی میری جماعت فوت نہیں ہوئی۔ ٭30سال سے میں اذان سے پہلے ہی مسجد میں موجود ہوتا ہوں۔ ٭جیسے ہی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے میں نماز کی تیّاری میں مشغول ہوجاتا ہوں اور فرض نماز کا وقت آنے سے پہلے ہی میں شِدّت سے اس کا منتظر ہوتا ہوں۔(حلیۃ الاولیاء،ج2،ص،186185، رقم:1875،1872،1871)

اللہ پاک ہمیں بھی  رِزْقِ حلال کمانے کے ساتھ ساتھ  باجماعت نماز کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭   ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

حضرت حبیب عجمی/حضرت خواجہ حسن بصری علیہ رحمہ

ابو محمد حضرتِ سیّدنا سعید بن مُسَیَّب بن حَزْن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم جلیلُ القدر تابعی بزرگ، بہت بڑے عالم اور مدینے کے سات فُقَہَا میں سے ایک تھے۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی زندگی میں ہی فتوے دیا کرتے تھے۔ فاروقِ اعظم کے فیصلوں کے عالِم حضرت مَکْحول رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ’’میں نے طلبِ عِلْم میں تمام زمین چھان ماری لیکن حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے بڑا عالم نہیں پایا۔‘‘ آپ حلال و حرام کے سب سے زیادہ جاننے والے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی احادیث اور حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلوں کے سب سے بڑے عالِم تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز جب مدینہ شریف کے گورنر تھے تو کسی مُقدّمے کا فیصلہ اس وقت تک نہ فرماتے جب تک کہ اس کے متعلّق آپ سے نہ پوچھ لیتے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز نے ایک شخص کو آپ سے سوال کے لئے بھیجا تو وہ آپ کو بلا لایا، حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز نے بطورِ مَعْذِرت کہا کہ اس شخص سے غلطی ہوگئی ہے، اسے آپ کی مجلس میں سوال کے لئے بھیجا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز فرمایا کرتے تھے: مدینے میں کوئی ایسا عالِم نہیں جو اپنا علم خود میرے پاس لے کر نہ آتا ہو جبکہ حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا عِلْم میرے پاس لایا جاتا ہے۔ صحابیِّ رسول کے داماد حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہزادی آپ کے نِکاح میں تھیں۔ آپ کے والد اور دادا دونوں صحابیِ رسول تھے۔ آپ نے چالیس حج کئے اور 93ھ میں وصال ہوا، جس سال آپ نے دنیا سے کوچ کیا اس سال کو فُقَہا کا سال کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال میں بکثرت فُقَہا  کا انتقال ہوا۔ ذریعۂ آمدن آپ نذرانوں کو قبول نہیں فرماتے تھے، آپ کے پاس 400 دینار کا سَرمایہ تھا جس سے زیتون کے تیل (Olive Oil) کی تِجارت کرتے تھے۔ (تہذیب الاسماء واللغات،ج1،ص214،213، سیر اعلام النبلاء،ج5،ص219، مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص278) اچّھی نیّت سے مال جمع کرنے کی ترغیب ٭ آپ فرماتے ہیں: اس آدمی میں کوئی بَھلائی نہیں جو اپنی حلال کمائی اس نیّت سے جمع نہ کرے کہ اس سے خود پر واجب حُقوق ادا کرے اور لوگوں سے سوال کرنے سے بچے۔ ٭ایک موقع پر فرمایا: اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو صلۂ رحمی کرنے، امانت ادا کرنے اور مخلوق کی محتاجی سے بچنے کے لئے مال سے مَحبت نہ کرے۔(حلیۃ الاولیاء،ج 2،ص197، رقم:1918)تِجارت کے ساتھ ساتھ نمازِ باجماعت کی پابندی میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تاجر تھے، اِس کے باوجود آپ مسجد میں اذان سے پہلے حاضر ہوتے اور جماعت کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا فرماتے تھے جبکہ ہمارا معاملہ اس کے اُلٹ ہے، تاجروں کی ایک تعداد تجارت کے باعث جماعت تو جماعت نماز تک قضا کردیتی ہے، آئیے اس حوالے سے حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے معمولات خود آپ ہی کی زَبانی مُلاحَظَہ کرتے ہیں: ٭40سال سے میرا یہ معمول ہے کہ کبھی میری جماعت فوت نہیں ہوئی۔ ٭30سال سے میں اذان سے پہلے ہی مسجد میں موجود ہوتا ہوں۔ ٭جیسے ہی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے میں نماز کی تیّاری میں مشغول ہوجاتا ہوں اور فرض نماز کا وقت آنے سے پہلے ہی میں شِدّت سے اس کا منتظر ہوتا ہوں۔(حلیۃ الاولیاء،ج2،ص،186185، رقم:1875،1872،1871)

اللہ پاک ہمیں بھی  رِزْقِ حلال کمانے کے ساتھ ساتھ  باجماعت نماز کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭   ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share