ڈش ری چارج کرنا کیسا؟

ڈش ری چارج کرنا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں موبائل شاپ چلاتا ہوں اور پہلے ڈش ری چارج بھی کرتا تھا۔ اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا ڈش ری چارج کر سکتے ہیں اس پرکمیشن ملتا ہے اگر ہم نہیں کریں گے تو کوئی اور کرے گا تو کیا ڈش ری چارج کر سکتے ہیں؟ اسی طر ح نیٹ ری چارج کا بھی ارشاد فرمائیں کیونکہ نیٹ کا بھی لوگ غلط استعمال کر سکتے ہیں تو کیا نیٹ کی سہولت فراہم کرنا بھی ناجائز ہوگا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:چینل کی دنیا بہت وسیع ہے اور نت نئے انداز پر دنیا کے مختلف ممالک میں یہ سہولت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں خاص طور پر پڑوسی ملک کے فلموں اور ڈراموں کے چینلز ڈش کے ذریعے ماہانہ معاوضہ دے کر حاصل کئے جاتے ہیں ورنہ اس چینل کی سروس بند ہوجاتی ہے۔ عام طور سے تو لوگ یہ چینلز کیبل کے ذریعے دیکھ رہے ہوتے ہیں جن کو کیبل آپریٹر خود فیس ادا کر کے آگے سپلائی کر رہا ہوتا ہے لیکن براہِ راست ڈش سے دیکھنے والے خود یہ سہولت حاصل کرنے کے لئے ری چارج کرواتے ہیں۔

شریعتِ مطہرہ کے اصولوں کی روشنی میں یہ پورا عمل سروس اور خدمات پر مشتمل ہے جائز سروس اور خدمات کا معاوضہ بھی جائز ہے جبکہ ناجائز سروس اور خدمات کا معاوضہ و معاونت بھی ناجائز ہوتی ہے ۔

پوچھی گئی صورت میں ان چینلز کا ری چارج کرنے والا گناہوں بھرے چینلز کی ترویج و اشاعت میں براہِ راست معاون و مدد گار ہےاس لئے ایسے کسی بھی ڈش کا ری چارج کرکے نفع کمانا حلال نہیں جو گناہوں پر مشتمل ہے بلکہ بغیر معاوضے کے بھی یہ کام جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ گناہ پر معاونت ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ویسے بھی یہ کام ہمارے ملک پاکستان میں غیر قانونی ہے اور اس طرح کے بیشتر چینلز حکومت کی طرف سے اس طرز پر کام کرنے کے مجاز نہیں لیکن ناجائز ہونے کی اصل وجہ وہی ہے جو اوپر لکھی جاچکی۔ لہٰذا اگر قانون ایسے چینلز کی اجازت بھی دے تب بھی یہ کام ناجائز ہی رہےگا۔

جہاں تک انٹرنیٹ کا تعلق ہے تو انٹر نیٹ کے ہزارہا مثبت استعمال موجود ہیں اب استعمال کرنے والےپر ہے کہ وہ استعمال کرکے کہاں جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال خود ٹی وی یا ایل سی ڈی کی ہے کہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ٹی وی یا ایل سی ڈی بیچنا جائز ہے کیونکہ خریدنے والے کی مرضی ہے وہ چاہے تو صرف مدنی چینل دیکھے کوئی اور چینل نہ دیکھے، یوں دیکھنے والے پر ہے کہ وہ اس کا کیا استعمال کرے گا ۔یعنی یہاں گناہ ہونا متعین نہیں لیکن جہاں گناہ ہونا متعین ہو وہاں رخصت یا چھوٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔جن چینلز کو ہمارے ملک میں ری چارج کر کے دیکھا جاتا ہے وہ فحاشی و عریانیت اور کفار کی تہذیب اور بے ہودگی پر مشتمل ہیں لہٰذا یہاں گناہ متعین ہے اس کی کسی بھی سطح کی براہِ راست معاونت کیسے جائز ہو سکتی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میرج بیورو کی آمدنی کاشرعی حکم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو لوگ شادیاں کرواتے ہیں یعنی میرج بیورو چلاتے ہیں وہ اس کام کے پیسے لیتے ہیں۔ کیا ان کا پیسہ لینا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:نکاح کروانے اور رشتے کروانے کی اجرت لی جاسکتی ہے یعنی یہ کام جائز ہے جبکہ اس معاملے میں لین دین اور اجرت کے تمام شرعی تقاضے بھی پورے کیے جائیں۔

عام طور پر رشتہ کروانے والے رئیل اسٹیٹ کی طرح دو پارٹیوں کو ملانے کا ہی کام کرتے ہیں۔ یہاں یہ ضروری ہے کہ رشتہ کروانے والے کو کام پہلے سپرد کیا ہو اور اس نے دوڑ دھوپ اور عملی محنت بھی کی ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نیوز ایجنسی قائم کرنا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نیوز ایجنسی قائم کرنا کیسا ہے؟ نیوز ایجنسی کےاندر مختلف قسم کے اخبارات اور میگزین وغیرہ فروخت کیے جاتے ہیں ان میگزین اور اخبارات میں مختلف قسم کی چیزیں ہوتی ہیں تو نیوز ایجنسی قائم کرنا اور یہ اخبارات فروخت کرنا کیسا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:اخبارات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو خبروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو فلمی اخبارات کہلاتے ہیں اور بنیادی طور پر فلموں یا ناجائز کاموں کی تشہیر کے لئے ہوتے ہیں ان کے خریدنے کا مقصد تصویریں دیکھنا ہوتا ہےیا پھر صرف فلموں ہی کے بارے میں جاننا دوسری قسم یعنی فلموں کے میگزین کی خرید و فروخت جائز نہیں۔ البتہ وہ اخبارات جو بنیادی طور پر خبروں پر مشتمل ہوتے ہیں ان میں خبریں اصل مقصد ہوتی ہیں لہٰذا ان کی خرید و فروخت جائز ہے۔ جہاں تک ان میں موجود تصاویر کا تعلق ہے تو چونکہ ان میں خریدنے والے کا مقصد تصاویر نہیں ہوتیں بلکہ اس کا مقصد خبروں کے ذریعے منفعت حاصل کرنا ہوتا ہے جو کہ جائز منفعت ہے اور ان اخبارات کا غالب حصہ خبروں اور معلومات پر مشتمل ہوتا ہے باقی چیزیں ضمناً ہوتی ہیں لہٰذا”انما الامور بمقاصدھا“ کے تحت مقصود کو دیکھتے ہوئے اس کام کو جائز ہی کہا جائے گا، ناجائز نہیں کہہ سکتے۔

 وَقارُ الفتاویٰ میں ایسی کتب جن میں تصاویر بھی ہوتی ہیں ان کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:”ان کتابوں کا بیچنا جائز ہے کہ یہ کتابوں کی خرید و فروخت کرنا ہے نہ کہ تصاویر کی۔ البتہ علیحدہ سے تصویر کا بیچنا حرام ہے۔“(وقار الفتاویٰ،ج1،ص218)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

بروکری کی ایک ناجائز صورت

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص دکاندار کے پاس پرندوں کا جوڑا مثلاً مہنگے طوطے بیچنےآیا ،دکاندار نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے میں ان کو اپنی دکان میں رکھ لیتا ہوں جتنے کے بِکیں گے اس میں بیس ہزار آپ کو دوں گا اور اُوپر جو ہوں گے وہ میں رکھ لوں گا۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں ان دونوں افراد کے درمیان خرید و فروخت تو نہیں ہوئی بلکہ گاہک نے دکاندار کو طوطے بیچنے کا وکیل بنایا ہے، اب دکاندار یہ طوطے بیچ کر اس کی اجرت لے گا اور اجرت یہاں مجہول ہے کیونکہ معلوم نہیں کتنے کا بِکے گا لہٰذا یہ طریقہ شرعاً جائز نہیں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دارالافتا اہل سنت نورالعرفان ،کھارادر باب المدینہ کراچی                       

 


Share

Articles

Comments


Security Code