ملکِ شام سے ایک مسلمان تاجِر مدینے کی جانب بڑھ رہا تھا سامان میں قِنْدیلیں، تیل اور رَسیاں بھی موجود تھیں۔جمعرات کا دن ڈھلنے کے قریب تھا کہ تاجر مسجدِ نَبَوی شریف میں داخل ہوگیا، غلام نے تاجر کے حکم سے سامان کھولا اور قِنْدِیلیں نکال کر سُتُونوں کے ساتھ لٹکادیں پھر ان میں تیل اور پانی ڈال کر فَتِیْلے (بَٹی ہوئی ڈوریاں) رکھ دیئے، اُدھر سورج نے اپنا چہرہ چھپایا اِدھر تاجر نے غلام کو قِنْدِیلیں روشن کرنے کاحکم دیا، روزانہ سورج کے غُروب ہوتے ہی جب رات کی تاریکی مسجد میں داخل ہونے لگتی تو کھجور کےسُوکھے پتّوں کو جَلا کر کچھ روشنی کا انتظام کر لیا جاتا تھا مگر آج مسجدِ نبوی شریف قِنْدِیلوں کی روشنی سے جگمگا رہی تھی۔ رحمتِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے اس حسین اور خوبصورت مَنْظَر کو دیکھ کر اِستِفسار فرمایا: کس نے ہماری مسجد کو روشن اور مُنَوَّرکیا ہے؟ صحابۂ کرام علیہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: آپ کے ایک جا نثار اور وفادار صحابی حضرت تَمِیْم دارِی نے۔ جانِ عالَم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی زَبان پر یہ دُعائیہ کلمات جاری ہوگئے: اے تمیم داری! تم نے مسجد کوسجاکر اسلام کو زینت بخشی ہے، اللہ تعالیٰ تمہاری دنیا و آخِرت دونوں کو روشن کرے۔ (وفاء الوفا،ج1،ص596، الاستیعاب،ج 2،ص242) دارِی کہلانے کی وجہ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سیّدُنا تمیم داری رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا پورا نام ابو رُقَیّہ تمیم بن اَوس بن خارجہ ہے جبکہ مُورِثِ اَعلیٰ’’عبدُالدّار‘‘ کی نسبت سے ”دارِی“ کہلائے۔ (الاستیعاب،ج1،ص270) دَجّال کو دیکھا قبولِ اسلام سے پہلے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ ایک عِطْر فَروش تھے (بلاغات النساء لابن طیفور،ج1،ص128) اور اس سلسلے میں مختلف ملکوں کا سفر کرتے تھے ایک مرتبہ سمندری سفر پر تھے کہ راستہ بھول گئے اور سمندر میں ایک ماہ تک بھٹکتے رہے آخر کار ایک سُنْسان جزیرہ پر پہنچے جہاں دَجّال قید تھا، اسے دیکھ کر اور اس سےباتیں کرکے آپ پر اسلام کی حَقّانِیَّت ظاہر ہوگئی،چنانچہ 9 ہجری میں اپنے قبیلے کے 10 افراد کے ساتھ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ گوش گزار کرکے ایمان لےآئے۔ (مسلم، ص 1204، حدیث: 7386 ملخصاً، سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص83،84)تحائف کا سلسلہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم میں مختلف تحفے پیش کرتے رہتے تھے، ایک دفعہ ’’اَلْوَرْد‘‘نامی ایک قیمتی گھوڑا پیشِ خدمت کیا (تاریخ ابن عساکر،ج4،ص227) جبکہ ایک مرتبہ مُنَقّے (بڑی کشمش کے دانے) بھی پیش کئے۔ (العقد الفرید،ج 7،ص301) گاؤں، تحفے میں ملا ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے یوں عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! اللہ تعالیٰ آپ کی عزّت و عظمت اور شانِ رِسالت کو پوری دنیا میں ظاہر فرمارہا ہے لہٰذا مجھے بیتُ المقدّس کا قریبی گاؤں’’بیتِ لَحم‘‘ عطا فرمادیجئے، ارشاد فرمایا: وہ گاؤں تمہارا ہے، پھر اس گاؤں کی ایک دستاویز تیار کرکے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے حوالے کردی گئی، جب مسلمانوں نے ملکِ شام پر فَتْح کا جھنڈا لہرایا تو آپ اسی دستاویز کو لے کر خلیفۂ ثانی حضرت سیّدنا عمرفاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے فاروقِ اعظمرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے وہ بستی آپ کے سُپُرْد کردی،([1]) یاد رہے کہ یہ وہی مُقَدَّس مَقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے بَرگُزیدہ نبی حضرت سیّدنا عیسیٰ علیہِ السَّلام کی پیدائش ہوئی تھی۔(الاموال للقاسم، ص288، حدیث: 682)اِصلاحِ اُمّت کا جذبہ حضرت سیّدنا تمیم داری رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے حضرت سیّدنا عمر فاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے مسجد میں بیان کرنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے پوچھا: آپ کیا بیان کریں گے؟ عرض کی: لوگوں کے سامنے قراٰنِ مجید پڑھوں گا، انہیں نیکی کی جانب راغِب کروں گا اور بُرائی سے منع کروں گا، حضرت سیّدنا عمررضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ نَفع کا سودا ہے چنانچہ جمعہ کے دن آپ اپنا بیان جاری رکھتے یہاں تک کہ حضرت سیّدناعمر فاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ جمعہ پڑھانے کے لئے تشریف لے آتے۔ آپ نے مزید بیان کرنے کی اجازت طلب کی تو حضرتِ عمر فاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کو مزید ایک دن کی اجازت دےدی، حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں بیانات کے سلسلے میں ایک دن کا اور اضافہ کر دیا تھا یوں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ ہفتے میں تین دن بیان کرنے لگے۔ (مصنف عبد الرزاق،ج3،ص109، حدیث:5415، الاوائل للعسکری،ص370) اِمامت کے فرائض آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا شمار ان خوش نصیب حضرات میں ہوتا ہے جنہیں حضرت عمر فاروقرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے نمازِ تراویح باجماعت پڑھانے کے لئے امام مقرّر فرمایا تھا۔ (مؤطا لامام مالک،ج1،ص120، حدیث: 256) عبادت کا خصوصی اِہتمام آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بڑے عابد و زاہد تھے ،جب نماز کا وقت ہوجاتا توعمدہ کپڑے پہن لیتےکبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہزار درہم کی مہنگی چادر اوڑھ کر نماز کے لئے باہر تشریف لاتے۔ رات کے سائے گہرے ہوجاتے تو مِسواک کرتے پھر عِطْر لگاکر اپنے آپ کو معطّر کرتے اور نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ تہجّد کے لئے مزید اہتمام کرتے اور ایک خاص لباس زیبِ تَن کرکے نمازِتہجّد ادا کرتے۔ مہنگا لباس آپ نے چارہزار درہم کا ایک مہنگا اور عمدہ لباس خرید کر رکھا ہوا تھا لہٰذا جس رات لیلۃُ القدر کا گمان ہوتا تو خصوصیّت کے ساتھ اسی لباس کوپہنتے اور پوری رات ذکر و عبادت میں گزار دیتے تھے۔ (التھجدو قیام اللیل لابن ابی الدنیا،ج1،ص311 ملخصاً) نفس کو سزا دی ایک رات آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تہجد کی نماز نہ پڑھ سکے تو اپنے نفس کو سزا دینے کی ٹھانی اور رات میں سونا چھوڑ دیا یہاں تک کہ پورا ایک سال آپ کو قیامُ اللَّیل کرتے ہوئے گزرگیا۔ (ایضاً،ج1،ص273) شوقِ تلاوت آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سات دنوں میں ایک بار ختمِ قراٰن کرتےتھے (طبقات ابن سعد ،ج 3،ص379) جبکہ بعض اوقات یوں ہوتا کہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور ایک رکعت میں ہی پورا قراٰن پڑھ لیا کرتے۔ (الزھد لابن المبارک ،ص452) نیکی کیوں ظاہر کروں؟ ایک مرتبہ کسی نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے پوچھاکہ آپ روزانہ رات میں کتنا قراٰنِ پاک پڑھ لیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا:شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جورات کو قراٰن پڑھ کر لوگوں کو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ میں نے آج رات قراٰن کی تلاوت کی ہے ،پھر فرمایا: مجھے(بھول کر)تین رکعتیں نفل نماز پڑھ لینا تو پسند ہے لیکن یہ پسند نہیں کہ رات بَھر قراٰنِ پاک کی تلاوت کروں اور صبح لوگوں پر یہ بات ظاہر کردوں۔ (ایضاًص471) خوفِ خدا بعض اوقات ایک ہی آیت بار بار پڑھتے رہتے اور روتے رہتے یہاں تک کہ صبحِ صادق ہوجاتی۔ (الزھد لاحمد ، ص201) مہمان نواز نماز کے بعدمسجد میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو دائیں بائیں جو بھی ملتا اس کا ہاتھ پکڑتے اور اپنے گھر لاکر اَنواع و اَقسام کے کھانوں سے اس کی خوب خاطِر تَواضُع کیا کرتے۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 11،ص78) سکونت و مقامِ وصال آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے اپنی رہائش مدینۂ مُنَوَّرَہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً میں رکھی لیکن حضرت سیّدناعثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد ملکِ شام تشریف لے گئے اور تادَمِ حیات وہیں رہے (جامع الاصول ،ج 12،ص326) اورسِن 40 ہجری میں دنیائے فانی سے کوچ فرماگئے۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے مروی 18 اَحادیثِ مُبارکہ کے مہکتے اور تروتازہ پھول آج بھی کتبِ احادیث کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص87)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
[1] ۔۔۔ امام جلالُ الدّین سیوطیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (سالِ وفات:911ھ)فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا تمیم داریرضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد دَر اولاد آج تک اسی بستی میں رَہ رہی ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے اس بستی کو واپس لینا چاہا تو امام غزالیعلیہ رحمۃ اللہ الوَالی نے ان کے کفر کا فتویٰ دیا اور فرمایاکہ رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو اس شان و عظمت کے مالک ہیں کہ اپنے اصحاب علیہم الرضوان کو جنّت کی زمین تقسیم فرمادیا کرتے تھے لہٰذا دنیا کی زمین تقسیم کرنے کے تو زیادہ حقدار ہیں ۔ (خصائص کبریٰ،ج 1،ص421)
Comments