نماز اور گیارھویں والے پیر / غوث اعظم کی تین کرامات

ایمان اور عقائد کی دُرستی کے بعد تمام فَرائض میں نہایت اَہم و اَعظم نماز ہے۔([1]) قراٰن و حدیث اس کی اَہمیّت سے مالامال ہیں۔ ایک روایت کے مطابق قِیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔([2])قراٰنِ پاک میں جابَجا اس کی تاکید آئی ہے۔ ہمارے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نماز سے بہت محبت تھی۔ امام بَیْہَقِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے روایت کیا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا: اسلام میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کیا چیزہے؟ تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:نماز کو اپنے وقت میں ادا کرنا، جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں، نماز دین کا سُتون ہے۔([3])

سیّدُالاَتْقِیاء، غوثِ اعظم، پیرانِ پیر، روشن ضمیر حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادرجیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی سیرتِ مبارَکہ میں بھی نماز سے محبت جابَجا ملتی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مبارک زندگی میں نماز کا کتنا اہتمام ہوتا تھا۔ اس سے متعلّق چند واقعات درج ذیل ہیں۔  عشاکے وضو سے فَجْر کی نماز  ابوالفتح ہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیّدنا شیخ عبدُالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی خدمت میں چالیس سال رہا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ہمیشہ عشا کے وُضو سے فَجْر کی نماز پڑھتے۔ آپ کا معمول تھا کہ جب وُضو ٹوٹ جاتا تو فوراً وُضو فرما لیتے اور وُضو کر کے دو رکعت تَحِیَّۃُ الْوُضو ادا فرماتے اور رات کو عشا کی نماز پڑھ کر اپنے خَلْوَت خانے میں داخل ہوتے اور صبح کی نماز کے وقت وہاں سے نکلا کرتے۔([4])   اللہُ اَکْبَر! غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو نماز سے کتنی محبت تھی۔ اے کاش! ہمیں بھی غوثِ پاک کے صدقے نمازوں کی پابندی نصیب ہو جائے اور فَرائض کے ساتھ ساتھ ہم نَفْل نماز کے بھی عادی ہوجائیں۔ روزانہ ایک ہزار نوافل ہمارے غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ روزانہ ایک ہزار نوافل ادا فرماتے۔([5]) نماز میں مشغولیت  امیرِاہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ”سانپ نُما جن“ میں یہ حِکایَت نَقْل کرتے ہیں کہ حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں ”جامع منصور“ میں مصروفِ نماز تھا کہ ایک سانپ آگیا۔ اس نے میرے سجدے کی جگہ سَر رکھ کر اپنا منہ کھول دیا۔ میں نے اسے ہٹا کر سجدہ کیا مگر وہ میری گردن سے لِپَٹ گیا۔ پھر وہ میری ایک آستین میں گُھسااور دوسری سے نکلا۔ نماز مکمل کرنے کے بعد جب میں نے سلام پھیرا تو و ہ غائب ہوگیا۔ دوسرے روز میں پھر اُسی مسجِد میں داخل ہوا تو مجھے ایک بڑی بڑی آنکھوں والا آدَمی نظر آیا میں نے اُسے دیکھ کر اندازہ لگالیا کہ یہ شخص انسان نہیں بلکہ کوئی جِنّ ہے۔ وہ جنّ مجھ سے کہنے لگا کہ میں آپ کو تنگ کرنے والا وُہی سانپ ہوں۔ میں نے سانپ کے رُوپ میں بہت سارے اولیاءُ اللہ رحمہم اللہ تعالٰی کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا کسی کو بھی ثابت قدم نہیں پایا۔ پھر وہ جِنّ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  کے دستِ مبارک پر تا ئب ہوگیا۔([6])

اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا غلام اور ان کی سیرت پر چلنے والا بنائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی    



[1] ۔۔۔ بہارِ شریعت ،ج1،ص433

[2] ۔۔۔ ابن ماجہ،ج 2،ص183،حدیث:1426

[3] ۔۔۔ شعب الايمان،ج 3،ص39، حدیث: 2807

[4] ۔۔۔ قلائد الجواھر،ص76

[5] ۔۔۔ تفریح الخاطر، ص45

[6] ۔۔۔ بَھجۃ الاسرار،ص،169


Share

نماز اور گیارھویں والے پیر / غوث اعظم کی تین کرامات

تذکرۂ صالحین

غوثِ اعظم  کی تین کرامات

ابوعبید عطاری مدنی

ماہنامہ ربیع الآخر 1440

 اللہ عَزَّ وَجَلَّ  جسے چاہتا ہے اس پر اپنا خاص فضل فرما کر ولایت سے  سَرفراز فرماتا ہے اور مخلوق  کے دل میں اس کی مَحَبّت پیدا کردیتا ہے پھر یہی مَحبت مخلوقِ خدا کو کھینچ کر ولایت کے ان دَرَخْشاں ستاروں کے دَر پر لے آتی ہے جہاں خَلْقِ خدا کو اپنی حاجت روائی ، مشکل کشائی ، راہ نُمائی  اور قربِ الٰہی پانے کے مختلف راستے نظر آتے ہیں ، اولیائے  کرام اللہ تعالٰی کی عطا سے مخلوقِ خدا کو فیض اوربرکات پہنچاتے ہیں اور اسے اللہتعالیٰ سے ملادیتے ہیں۔ خلقِ خدا کبھی اس فیض و برکت کو وَعْظ و نصیحت سے پاتی ہے ، کبھی اولیاءُ اللہ کے حسنِ اخلاق اور عمل سے اپنے باطن کو روشن کرتی ہے تو کبھی یہی مخلوق اس فیض کو کرامات کی صورت میں دیکھتی ہے اور اپنے ایمان کی کَلی کے کِھلنے اور عقیدت کی گرہ کےمضبوط ہونے کا سامان کرتی ہے۔ غوثِ صمدانی ، قطبِ ربّانی ، مَحبوبِ سبحانی حضرت شیخ سیّد  عبدالقادر جیلانی  قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی ذاتِ گرامی سےبھی بے شُمار افراد نے فیض پایاہے ، پارہے ہیں اور تا قِیامت پاتے رہیں گے بلکہ اِنْ شَآءَ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  بروزِ قیامت بھی فیوض و برکات سے حصّہ پائیں گے۔ آپ کی ذات سے بے شمار کرامتوں کا صدور ہوا ہے ان میں سے تین کرامتیں ملاحَظَہ کیجئے۔ (1)ہوا میں اڑکر غائب ہوگیاشیخ عبد اللہ محمد حُسَینی  قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بیان فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں اور شیخ علی بن ہِیْتی   علیہ رحمۃ اللہ القَوی  حضور غوثِ اعظم   علیہِ رحمۃُ اللہِ الاَکْرم   کی خدمت میں حاضِر ہوئے تو دیکھا کہ ایک جوان دروازے پر پڑا ہے ، اس نے ہمیں دیکھتے ہی کہا : میرے لئے حضور غوثِ اعظم سے سفارش کردینا ، جب ہم اندر پہنچے تو حضور غوثِ اعظم   علیہِ رحمۃُ اللہِ الاَکْرم   سے شیخ علی بن ہِیْتی  علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے اس شخص کا ذکر کیاتو  انہوں نے  فرمایا : ہم نے اسے تمہیں دے دیا۔ شیخ علی بن ہیتی  علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے اس جوان سے آکر یہ بیان کیا کہ میری سفارش تمہارے حق میں قبول ہوگئی ہے ، وہ شخص فوراًہَوا میں اُڑ کر غائب ہوگیا ، پھر ہم نے حضور غوثِ اعظم   علیہِ رحمۃُ اللہِ الاَکْرم   سے اس معاملے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا : وہ مرد صاحبِ حال تھا ، اِدھر سے گزرااور دل میں یہ خیال لایا کہ میری مثل یہاں کوئی نہیں ہے ، ہم نے اس کا حال سَلَب کرلیا(چھین لیا) اگر شیخ علی بن ہِیْتی نہ آتے تو وہ یوں ہی پڑا رہتا۔  (بہجۃ الاسرار ، ص142 ،  برکاتِ قادریت ، ص57)  (2)اللہ کے حکم سے مرجا حضرتِ سیِّدُنا ابو العباس احمد بن محمد   رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ   بیان فرماتے ہیں : ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا غوثِ اعظم   علیہِ رحمۃُ اللہِ الاَکْرم   جامع مسجِد منصوری تشریف لے گئے جب واپس آئے تو چادر مبارک اُتاری اور ایک بچھو کو نکالااور فرمایا : مُوْتِیْ بِاِذْنِ اللّٰہِ تَعالٰی یعنی اللہ کے حکم سے مرجا ، اسی وقت وہ مرگیا ، پھر ارشاد فرمایا : اے احمد! جامع مسجِد منصوری سے یہاں تک اس نے مجھے 60مرتبہ ڈنک مارا ہے۔  (برکاتِ قادریت ، ص66) (3)قافلہ ڈاکوؤں سے بچ گیا حضرتِ سیِّدُنا ابوعَمْر و عثمان اور حضرتِ سیِّدُنا ابومحمدعبدالحق   رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما   فرماتے  ہیں کہ ہم حُضُور سیِّدُنا غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کے دربار میں حاضِر تھے ، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے وُضُو کرکے کھڑاویں (لکڑی کی بنی ہوئی چپلیں) پہنیں اور دو رکعتیں پڑھیں ، بعدِ سلام ایک زور دار نعرہ لگایا اور ایک کھڑاؤں ہوا میں پھینکی ، پھر دوسرا نعرہ مارا اور دوسری کھڑاؤں پھینکی ، دونوں چپلیں آناً فاناًہماری نگاہوں سے غائب ہوگئیں ، پھر تشریف فرماہوئے ، ہیبت کے سبب کسی کو پوچھنے کی جُرّأت نہ ہوئی ، کچھ دن کے بعد عَجَم سے ایک قافلہ حاضرِ بارگاہ ہوا اور کہا : اِنَّ مَعَنَا لِلشَّیْخِ نَذْرًا یعنی ہمارے پاس شیخ عبد القادر کی ایک نذر ہے ، ہم نے غوثِ پاک  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اس نذر کے لینے میں اِذن طَلَب کیا ، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا : لے لو۔ تاجروں نے ایک مَن ریشم ، کچھ کپڑے کے تھان ، سونا اور حُضُورغوثِ پاک  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی وہ چپلیں جو اس روز ہوا میں پھینکی تھیں پیش کیں۔  ہم نے حیرت سے پوچھا : یہ چپلیں تمہارے پاس کہاں سے آئیں؟کہا : ہم سفر میں تھے کہ کچھ راہزن (یعنی ڈاکو)جن کے دو سردار تھے ہم پر آپڑے ہمارے مال لُوٹے اور کچھ آدمی قتل کئے اور ایک نالے میں تقسیم کو اُترے ، ہم نے (آپس میں ) کہا : بہتر ہوکہ اس وقت ہم  اپنے شیخ حضور غوثِ اعظم کو یاد کریں اور نجات پانے پر ان کیلئے کچھ مال نذر مانیں ، ہم نے حضورِغوثِ پاک کو یاد کیا ہی تھا کہ دو عظیم نعرے سنے جن سے جنگل گونج اٹھا اور ہم نے راہزنوں کو دیکھا کہ ان پر خوف چھاگیا ، ہم سمجھے ان پر کوئی اور ڈاکو آپڑے ، وہ آکر ہم سے بولے ، آؤ اپنا مال لے لو اور دیکھو ہم پر کیا مصیبت پڑی ہے ، وہ ہمیں اپنے دونوں سرداروں کے پاس لے گئے ہم نے دیکھا وہ مَرے پڑے ہیں اور ہر ایک کے پاس ایک چپل پانی سے بھیگی رکھی ہے ، پھر ڈاکوؤں نے ہمارا سارا مال لوٹا دیا ۔ (بہجۃ الاسرار ، ص132ملخصاً)

قسم ہے کہ مشکل کو مشکل نہ پایا

کہا ہم نے جس وقت یاغوثِ اعظم

(ذوق نعت ، ص126)


Share

نماز اور گیارھویں والے پیر / غوث اعظم کی تین کرامات

نوید کی عادت تھی کہ ہر روز سونے سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی جمیل کے پاس جاتا اور ا س سے اچّھی اچّھی باتیں کرتا۔ آج  بھی وہ حسبِِ معمول  چھوٹے بھائی کے پاس گیا اور سلام کیا:اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ!جمیل: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ! سلام کا جواب دیتے ہی جمیل نے کہا: بھائی!آج کلاس میں ٹیچر  نے اللہ پاک کے ایک وَلی کے بارے میں بڑی  پیاری سچّی حکایت سنائی تھی۔نوید:اچھا!وہ حِکایَت مجھے بھی سنائیں۔جمیل:ضَرور!ٹیچر نے بتایا  تھاکہ چَھٹی صَدِی ہجری  میں اللہ پاک کے ایک ولی تھے،جن کا نام عبدُ القادر  اور لَقَب غوثِ اعظم تھا۔ وہ ایک بار دریا کے پاس سے گزرے تو وہاں ایک 90 سال کی بُڑھیا کو دیکھا جو  رو رہی تھی۔ آپ کے ایک مُرید نے کہا:حضور!اس بڑھیا  کا ایک ہی بیٹا تھا، بےچاری نے اس کی شادی کرائی ،جب دولہا نِکاح کرکے دُلہن کواسی دریا سےکشتی کے ذریعے اپنے گھر لارہا تھا کشتی اُلٹ گئی اور دولہا دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی۔ اس واقعہ کوآج 12سال گزرچکے ہیں مگر ماں بے چاری کا غم جاتانہیں، روزانہ دریا پر آتی ہے اور بارات کونہ پاکررو رو کر چلی جاتی ہے۔ حضورغوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہکواس بڑھیا پر بڑا تَرس آیااورآپ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا کی ۔ آپ کی دُعا کی برکت سے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کشتی اپنے  تمام تَرسامان، دولہا،دُلہن اورباراتیوں کے ساتھ پانی پر نظر آنے لگی اور چند ہی لمحوں میں کنارے پر آپہنچی۔تمام باراتی سرکارِغوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دعائیں لے کرخوشی خوشی اپنے گھرجاپہنچے۔ آپ کی اس کرامت کوسُن کرکئی کُفّار نے اسلام قبول کرلیا۔ (غوثِ پاک کے حالات،ص63 )

نوید:واہ بھئی!یہ تو بہت اچّھی حِکایت ہے ، میں آپ کو اُن  بزرگ کے بارے میں  کچھ اور باتیں بتاؤں جو شاید آپ کو ابھی تک پتا نہ ہو ں؟ جمیل: ہاں! کیوں نہیں! نوید: سرکارِغوثِ اعظمرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بےشمار خوبیوں کے مالِک تھے جیساکہ (1)آپ کی عادت تھی کہ جب بے وُضُو ہوتے تو اسی وقت وضوفرماکر دورکعت نمازِنَفْل پڑھ لیتے (2)15سال تک ہر رات میں پوراقراٰنِ پاک ختم کرتے رہے(3)آپ عشا کی نماز کے لئےوُضُو کرتے اور پوری رات عبادت کرتے رہتے  پھر اسی وُضُو سے  ہی فجر کی نماز پڑھتے اور اسی طرح 40 سال تک کرتے رہے (4)بچپن ہی  میں اپنی والدہ  کی اجازت سے دین  سیکھنے  کے لئے اپنے  گھر سے دُور بغدادشریف تشریف لے گئے۔جمیل: آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے  ان کے بارے میں ایسی  پیاری پیاری باتیں بتائیں ، لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ آپ کو یہ سب باتیں کہاں سے پتا چلیں؟ نوید:یہ سب باتیں  اور بہت کچھ میں نے ایک کتاب سے پڑھا ہے جس کا نام ہے ”غوثِ پاک کے حالات“ اسے مکتبۃُ المدینہ نے  چھاپا ہےاور میرے پاس موجود ہے۔جمیل:آپ مجھے وہ کتاب دے دیں تاکہ میں بھی اسے پڑھ سکوں۔ نوید:کیوں نہیں ! لیکن ابھی آپ سوجائیں صُبْح  فَجْر کی نَماز کے بعد لےکر پڑھ لیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدرس جامعۃ المدینہ،فیضان کنز الایمان ،باب المدینہ کراچی


Share

نماز اور گیارھویں والے پیر / غوث اعظم کی تین کرامات

تاریخِ اسلام میں عظیم حنفی فقیہ، مُحدِّث و مُفَسِّر حضرت علّامہ  مُلّا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کا تذکرہ سنہری حروف میں ملتا ہے۔ نام و نسبآپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نام علی بن سلطان محمد، کنیت ابوالحسن اورلَقَب نورُالدّین ہے۔ (موجودہ افغانستان کے شہر) ’’ہرات‘‘ میں ولادت ہوئی۔ (الاعلام للزرکلی،ج 5،ص12، تذکرہ مجددینِ اسلام،ص301)  ابتدائی تعلیم آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے علمِ تجوید ’’ہرات‘‘ ہی میں شیخ معینُ الدّین بن حافظ زَینُ الدّین ہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی سے حاصل کیا۔ (تذکرہ مجدیدینِ اسلام، ص301) مکۂ مکرّمہ کی طرف ہجرت جب  سلطان بن حیدر المعروف شاہ اسماعیل صَفَوی نے ’’ ہَرات‘‘ پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو شہید کرنے اور بَد مذہبیت پھیلانے لگا تو مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے مکۂ مکرمہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً کی طرف ہجرت کی، ان کے ساتھ  علّامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے بھی ہجرت کی اور آپ نے مکۂ مکرمہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً کو اپنا وطن بنا لیا۔ (تذکرہ مجددینِ اسلام،ص301،مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص8)قاری سے مشہور ہونے کی وجہ علمِ قِراءت میں مَہارَت کی وجہ سے آپ ’’قاری‘‘ کے لَقَبْ سے مشہور ہوئے۔ (مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص7) ذریعۂ معاش آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  ہر سال قراٰنِ پاک کا ایک نُسْخَہ اپنے ہاتھ سے لکھتے اور اس پر تفسیری حاشیہ لکھتے، اس  کوفروخت کرنےسے جو رقم حاصل ہوتی وہ آپ کے سال بھر کے گزر اوقات کیلئے کافی ہوتی۔(الاعلام للزرکلی،ج5،ص12) مجدّدِ وقت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی دینی خدمات کی وجہ  سے علما نے آپ کو دسویں صَدِی ہجری کا مُجَدِّدْ قراردیا ہے۔(تذکرہ مجددینِ اسلام،ص304) اساتذہ علامہ ابنِ حَجرہَیْتمی،شیخ متقی ہندی،شیخ محمد سعید میرکلاں،شیخ عبداللہ سِنْدی،شیخ قطبُ الدّین مکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔(مقدمہ شرح فقہ اکبر، ص3، مقدمہ تفسیر ملا علی قاری،ج1،ص6،مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص8) تصنیفی خدمات آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے کثیرکُتُب تحریر فرمائیں،مثلاً: (1)مِرْقَاۃُ الْمَفَاتِیْح: حدیث شریف کی مشہور کتاب ’’مِشْکَاۃُ الْمَصَابِیْح‘‘ کی بہترین عِلْمی و تحقیقی شرح ہے۔ اس کے لکھنے کا سبب آپ خود بیان فرماتے ہیں، جس کا خُلاصہ یہ ہےکہ کتبِ اَحادیث میں ’’ مِشْکَاۃُ الْمَصَابِیْح ‘‘ جامع اور نافع ترین کتاب ہے، اس کی شرح لکھنے والے اکثر شافعی ہیں، لہٰذا انہوں نے کتاب سےمتعلّق مسائل  اپنے مَسْلَک کے مُطابِق ذکر کئے اور اَحادیثِ مُبارکہ کے ظاہر سے اپنے مؤقف پر استدلال کیا۔ میں نے پسند کیا کہ اَحناف کے دلائل و  مَسائل کو احادیثِ مُبارکہ سے  واضح کروں تاکہ فِقْہی دلائل کونہ جاننے والے لوگ اس وَہم میں مبتلا نہ ہوں کہ اَحناف کے مسائل صحیح دلائل کے مخالف  ہیں اور میں اس کتاب کا نام مِرْقَاۃُ الْمَفَاتِیْحِ لِمِشْکَاۃِ الْمَصَابِیْحِ رکھتاہوں۔(مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص35)  (2)اَنْوَارُ الْقُرْاٰنِ وَ اَسْرَارُالْفُرْقَانِ:پانچ جلدوں پر مشتمل علما و صوفیا کے اَقوال کی جامع تفسیرِ قراٰن ہے۔ (3)شَرْحُ الشِّفَا:قاضی عِیاض مالکی  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  کی مشہورِزمانہ کتاباَلشِّفَاکی عشقِ مُصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لَبریز شرح ہے،دیگرعلماکی طرح اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بھی اپنی کتب میں اس سے اِستِفادَہ کیا ہے۔ (4)شَرْحُ مُسْنَدِ اَبِیْ حَنِیْفَہ:ایک جلد پر مشتمل امام اعظم ابوحنیفہ کی روایات کےمجموعہ” مُسْنَدِ اَبِیْ حَنِیْفَہ“کی یہ شرح ہے ،اس میں آپ  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے راوِیوں کا تعَارُف، لُغوی اَبحاث اور اَلفاظِ حدیث کی وضاحت کوانتہائی مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے،نیزشرح میں صِحاح سِتَّہ کی روایات بَطور شاہِدبیان کی ہیں۔ (5)جَمْعُ الْوَسَائِلْ فِيْ شَرْحِ الشَّمَائِل: دو جلدوں پر مشتمل امام تِرمذی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  کی مشہور کتاب ”اَلشَّمَائِلُ الْمُحَمَّدِيَّةُ وَالْخَصَائِلُ الْمُصْطَفَوِيَّةُ“کی یہ شرح ہے، اپنی عادت کے مطابق لغوی اَبحاث اور راویوں کے حالات کے علاوہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس میں‘‘مَتَنْ’’کے مختلف نسخوں کے لَفْظی فرق کے ساتھ ساتھ بعض مَقامات پر صِحاح سِتَّہ کی احادیث اپنے مؤقف کی تائید میں لاتے ہیں۔ (6)اَلْمَوْردُ  الرَّوِیْ فِی الْمَوْلِدِالنَّبَوِیِّ: میلاد شریف پر مُسْتَنَدْو تحقیقی کتاب ہے۔اس میں آپ  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ابو اسحاق ابراہیم بن عبدُالرَّحیم  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب مدینۂ مُنَوَّرَہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً  میں تھے تو میلادِ نَبَوی کے موقع پرکھاناتیار کرکے لوگوں کو کھلاتے اور فرماتے : اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینا ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔میں(یعنی علامہ علی قاری) کہتا ہوں :جب میں ظاہری دعوت ومہمان نوازی سے عاجز ہوں تو یہ اَوراق میں نے لکھ دیئے تاکہ میری طرف سے یہ مَعْنَوِی و نوری مہمان نوازی ہو جائے جو زمانہ کے صَفحات پر ہمیشہ باقی رہے، محض کسی سال یا مہینے کے ساتھ ہی خاص نہ ہو اور میں نے اس کتاب کا نام اَلْمَوْردُ الرَّوِیْ فِی الْمَوْلِدِ النَّبَوِیِّرکھاہے۔(المورد الروي في المولد النبوی، ص34) مزیدتصانیف (7)اَلْاَثْمَارُ الْجَنِيَّةُ فِيْ اَسْمَاءِ الْحَنَفِيَّةِ (8)اَلْفُصُوْلُ الْمُهِمَّةُ (9)بِدَايَةُ السَّالِك (10)شَرْحُ مُشْكِلَاتِ الْمُؤَطَّا (11)اَلْحِرْزُ الثَّمِیْنُ لِحِصْنِ الْحَصِيْنِ (12)نُزْھَۃُ الْخَاطِرِ الْفَاطِر(سیرتِ غوثِ اعظم) (13)فَتْحُ الرَّحْمٰنِ بِفَضَائِلِ الشَّعْبَان (14)مُصْطَلَحَاتُ اَھْلِ الْاَثرِ عَلٰی نُخْبَۃِ الْفِکْرِ (15)مِنْحُ الرَّوْضُ الْاَزْہَر فِی شَرْحِ فِقْہِ الْاَکْبَر۔ وصالِ مُبارک علم و آگہی کا یہ آفتاب شوّالُ المکرّم 1014ہجری کو غروب ہوگیااور مکۂ مکرّمہ زادہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً  کے قبرستان ”مَعْلَاۃ میں آپ کی تدفین ہوئی۔(مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص9)

 اللہ پاک  کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری  بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدرس جامعۃالمدینہ ،مدینۃ الاولیاء ملتان      


Share