حضرت سیّدتنا بی بی آسیہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا

نسب و تعارف مشہور قول کے مُطَابِق حضرتِ سیِّدَتُنا آسیہ   رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا  بادشاہِ مصر ریّان بن وَلِیْد کی اولاد میں سے تھیں۔ آپ کا نَسَب کچھ  یوں ہے: آسِیہ بنتِ مُزَاحِم بن عُبَیْد بن رَیَّان بن وَلِیْد۔ یہ ريّان بن وَلِيْد وہی ہیں  جو حضرتِ سیِّدُنا يُوسُف  علیہ السَّلام کے زمانےمیں  بادشاہِ مصر تھےاورآپ علیہ السَّلام پرایمان لے آئے تھے۔( روح المعانى، پ20 ،القصص، تحت الآیۃ:9، جزء20،ص 344۔نورالعرفان، پ20، القصص، ص615۔ المناقب المزیدیہ،ج1،ص38) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مساکین کی پناہ گاہ حضرتِ سیِّدَتُنا آسیہ  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا مصر کے انتہائی ظالم وجابِر بادشاہ فرعون کی بیوی تھیں۔بادشاہِ وقت کی بیوی ہونے کے سبب آپ کے پاس مال و دولت کی کثرت تھی  لیکن اس کے باوجود آپ غرور و تکبّر کا شکار نہیں  تھیں بلکہ آپ کا دل غریبوں کی مَحبّت سے سَرشار اور ان پر شفقت و مہربانی کے جذبے سے مَعْمُور تھا، آپ دل کھول کر ان پر صَدَقہ وخیرات کیا کرتیں اور اسی وجہ سے  آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا   کواُمُّ الْمَسَاکِیْن (یعنی مسکینوں کی ماں/پناہ گاہ) کہا گیا ہے۔(بغوى، پ20، القصص،تحت الآیۃ:9،ج 3،ص375،مستدرك ،ج 3،ص457، حديث:4150 ماخوذاً) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

فرعون سے بے رغبتی فرعون چونکہ لوگوں کے ساتھ بہت ظالمانہ سُلوک کیا کرتا تھا ،اس لئے آپ اس سے سَخْت بیزار تھیں۔ فرعون سے آپ کا نِکاح بھی بَرِضَا و رغبت نہیں ہوا تھا بلکہ آپ اور آپ کے والِد دونوں اسے ناپسند کرتے تھے، فرعون  نے بادشاہت کے زور پر جَبراً آپ سے نِکاح کیا تھا لیکن اللہ پاک نے آپ کو اس سے محفوظ رکھا اور وہ آپ کے قریب آنے پر قادِر نہ ہوا۔ (سيرت حلبیۃ،ج1،ص96مفہوماً) اس لئے  آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی اور جو بعض رِوایات میں فرعون کی ایک بیٹی کا ذِکْر ملتا ہے ممکن ہے یہ لڑکی لے پالک ہو یعنی  کسی دوسرے سے لے کر پالی گئی ہو۔ (نورالعرفان، پ20، القصص،تحت الآیۃ:9، ص464مفہوماً)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نبی کا نام رکھنے کا اعزازحضرتِ سیِّدَتُنا آسیہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے حضرت سیّدنا موسیٰ علیہ الصّلاۃ والسَّلام کا نام رکھا۔( خازن، پ20، القصص،تحت الآیۃ:7،ج 3ِص 425) حضرتِ سیّدنا موسیٰ علیہ الصّلاۃ و السَّلام  کی والدہ نے فرعون کے سپاہیوں کے ڈر سے آپ علیہ الصّلاۃ والسَّلام  کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں  ڈال دیا۔دریا سےایک نہر فرعو  ن کےمحل کے پاس سےبہتی تھی، یہ صندوق بہتا ہوا  اس نہر میں چلا گیا، فرعون  نے حکم دیا کہ اسے محل میں لاکرکھولاجائے۔ جب صندوق کھولاگیا تو اس سے ایک خوبصورت بچہ نکلا۔ قِبطی زَبان میں پانی کو ”مُو“ اور درخت کو ”سیٰ“ کہتے ہیں، یہ صندوق پانی اور درختوں کے درمیان پایاگیاتھا اس وجہ سے حضرت بی بی آسیہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا نےآپ کانام موسیٰ رکھا۔ (در منثور، پ20، القصص، تحت الآیۃ:4،ج 6،ص391، عجائب القراٰن، ص174 ماخوذاً)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)آنکھوں کی ٹھنڈک حضرتِ سیّدُنا موسیٰ علیہ الصّلاۃ السَّلام  بچپن میں جب حضرتِ سیّدتنا آسیہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا  کی گود میں آئے تو آپ نے حضرتِ سیّدُنا موسیٰ   علیہ الصّلاۃ السَّلام کے چہرے میں نورِ نُبُوّت دیکھ کر انہیں اپنا بیٹا بنالیا اورفرعون سے جو کہا اسے قراٰنِ پاک میں یوں بیان کیا گیا:(قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَؕ-لَا تَقْتُلُوْهُ ﳓ ترجمۂ کنزالایمان: یہ بچّہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو۔(پ20، القصص:9) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس پربدبخت فرعون نے کہا: اسے تم رکھ لو، مجھے اس کی کوئی حاجَت نہیں۔ پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اگر آسیہ کی طرح فرعون بھی اس بات کا اقرار کرتا کہ یہ بچّہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے تو ضَرور اللہ پاک اسے ہِدَایَت عطا فرمادیتا جیسے آسیہ کو عطا فرمائی۔(تفسير كبير، پ20، القصص، تحت الآيہ:9،ج8،ص581) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایمان کیسے نصیب ہوا؟ جادوگروں کے سحر اور حضرت سیّدناموسیٰ علیہ الصّلاۃ السَّلام  کے معجزے کے سنسنی خیز مُقَابَلے سے حق ظاہر ہونے کے بعد جہاں جادوگروں کو دولتِ ایمان نصیب ہوئی وہیں جب آپ کو اس مُقَابَلے کا حال معلوم ہوا تو آپ کے دل میں بھی فوراً حق کا نور چمک اُٹھا اور آپ حضرت موسیٰ علیہ الصّلاۃ السَّلام  پر ایمان لے آئیں۔(صراط الجنان ،ج10،ص230،مفہوماً)

جنّتی عورتوں کی سردار فرمانِ مصطفےٰ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ  وسلَّم ہے:جنّتی عورتوں کی سردارچار4 عورتیں ہیں: (1)مریم (2)فاطمہ (3)خدیجہ اور (4)آسیہ (رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ)۔

 ( كنز العمال،ج12،ص65، حديث: 34401)

جنّت میں سرکارِ مدینہ    صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے نکاح حضرتِ سیِّدَتُنا آسیہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ جنّت میں پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجہ ہوں گی، چنانچہ مروی ہے کہ جب اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدتُنا خدیجۃُ الکبریٰ  رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مرضِ وفات میں سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم   تشریف لائے اور فرمایا: اے خدیجہ! تمہیں اس حالت میں دیکھنا مجھے گِراں (یعنی ناگوار) گزرتا ہے لیکن اللہ پاک نے اس گِراں گزرنے میں کثیر بَھلائی رکھی ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک نے جنّت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ، مریم بِنْتِ عمران، (حضرتِ) موسیٰ(علیہ الصّلاۃ السَّلام ) کی بہن کُلْثُمْ اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فرمایا ہے۔ (معجم كبير،ج 22ِص451، حديث:1100 )

شہادت اور مزار مبارک جب فرعون نے آپ کو ایمان سے پھیرنے کی تمام تدبیریں کر لیں اور اسے ناکامی کا سامنا ہواتواس نے آپ کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا۔شہادت سے پہلے  آپ نے بارگاہِ الٰہی میں جو اِلتجا کی اسے قراٰنِ پاک  میں یوں بیان فرمایا گیا:(رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۱))  ترجمۂ کنزالایمان: اے میرے ربّ میرے لئے اپنے پاس جنّت میں گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات بخش۔(پ28، التحريم:11)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

آپ کی شہادت کا واقعہ  کچھ یوں ہے کہ فرعون نےاپنے کارندوں سے کہا :ایک بڑی چٹان لاؤ،اگر چٹان دیکھ کر بھی یہ ایمان پر قائم رہتی ہےتو چٹان اس پر گرا دو اور اگر ایمان سے پِھر جاتی ہےتو یہ میری بیوی ہے(اسے مَت مارنا)۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے چٹان لائی گئی تو آسمان کی طرف آپ کو اپنا جنّتی مَحل نَظر آیا جس سے آپ کے عَزْم واِسْتِقلال میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور اسی حالت میں آپ کی روح پرواز کرگئی، اس کے بعد جب آپ پر چٹان گرا ئی گئی تو وہ ایسے بدن پر گری جس میں روح نہیں تھی۔ (تفسير طبرى، پ28، التحريم، تحت الآيہ:11،ج 12،ص162)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا  کا مزارِ مُبَارَک مصر میں واقع ہے۔ (معجم البلدان،ج 4،ص277 ماخوذًا)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

حضرت سیّدتنا بی بی آسیہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا

کیا عورتیں نمازِ جنازہ پڑھ سکتی ہیں؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا عورتیں نمازِ جنازہ پڑھنے کیلئے جنازے کے ساتھ جاسکتی ہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورتوں کا نمازِ جنازہ پڑھنے کے لئے جنازے کے ساتھ جانا، ناجائز وگناہ  ہے، کیونکہ ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنازے کےساتھ عورتوں کو جانے سے منع فرمایا، بلکہ ایسی عورتوں کو ثواب سے خالی، گناہ سے بھری ہوئی فرمایا۔

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالٰی اپنے مجموعۂ احادیث ”سننِ ابنِ ماجہ“ میں نقل کرتے ہیں: عَنْ عَلِيٍّ،قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فَإِذَا نِسْوَةٌ جُلُوسٌ فَقَالَ:مَا يُجْلِسُكُنَّ قُلْنَ: نَنْتَظِرُ الْجِنَازَةَ، قَالَ:هَلْ تَغْسِلْنَ قُلْنَ: لَا، قَالَ:هَلْ تَحْمِلْنَ، قُلْنَ:لَا، قَالَ:هَلْ تُدْلِينَ فِيمَنْ يُدْلِي ، قُلْنَ: لَا، قَالَ:فَارْجِعْنَ مَأْزُورَاتٍ غَيْرَ مَأْجُورَاتٍ یعنی حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہےرسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے تو کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا: تم کیوں بیٹھی ہو؟ عرض کی: ہم جنازے کا انتظار کررہی ہیں۔ فرمایا: کیا تم غسل دوگی؟ عرض کی: نہیں۔ فرمایا: کیا تم جنازہ اُٹھاؤگی؟ عرض کی:  نہیں۔ فرمایا: کیا تم میّت کو قبر میں اتاروگی؟ عرض کی: نہیں۔ فرمایا:گناہ سے بھری ہوئی، ثواب سے خالی ہوکر لوٹ جاؤ۔ (ابنِ ماجہ، ص113)امام عبدالرحمٰن جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی ”الجامع الصغیر“ میں نقل کرتے ہیں: گناہ سے بھری ہوئی، ثواب سے خالی لوٹ جاؤ۔(جامع الصغیر مع  فیض القدیر ،ج1،ص605)

عورتوں کے جنازہ کے ساتھ جانے کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین حصکفی رحمہ اللہ تعالٰی ”دُرِّمُختار“ میں لکھتے ہیں:عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا مکروہِ تحریمی ہے۔ (درمختار،ج3،ص162) عورتوں کا جنازہ اُٹھانے کا حکم بیان کرتے ہوئے ”الاشباہ والنظائر“ میں ہے عورت جنازہ نہیں اُٹھائے گی، اگرچہ عورت کی میّت ہو۔(الاشباہ والنظائر،ص358)

صدرُالشّریعہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”بہارِ شریعت“ میں لکھتے  ہیں: عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانا،ناجائز وممنوع ہے۔ (بہارِ شریعت،ج1،ص823)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم

کیاخواتین کو ایامِ مخصوص میں وضو کرنے پر ثواب ملے گا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ باری کے دنوں میں وضو کرنے پر عورتوں کو ثواب ملے گا ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نماز کی عادت برقرار رکھنے کی غرض سےحائضہ عورت کے لئے مستحب ہے کہ وضو کرکے عام دنوں میں نماز پڑھنے کی مقدار وقت ذکر و دُرُود وغیرہ میں مصروف رہے، ایسا کرنے پر عورت کوثواب ملے گا کیونکہ یہ عورت کے لئے مستحب ہے اور مستحب کام کرنے پر ثواب ملتا ہے، البتّہ حائضہ عورت کو اس موقع کے علاوہ بھی  وضو کرنے پر ثواب ملےگا یا نہیں! اس کی  صراحت نَظَر سے نہیں گزری۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دارالافتا اہل سنت نورالعرفان ،کھارادر باب المدینہ کراچی                       


Share

Articles

Comments


Security Code