دِینی طُلَبا کی حوصلہ شِکنی مت کیجئے!
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء
از:شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ
علمِ دین سے محبّت رکھنے والے اور دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہونے والے اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلوانے کی کوشش اور حوصلہ اَفزائی کرتے ہیں لیکن مُعاشرے کے عام اَفراد کا بچوں کو دِینی تعلیم دِلوانے کا ذہن بہت کم ہوتا ہے بلکہ اگر بچہ دینی ماحول ملنے کے سبب دینی تعلیم کے شوق میں دَرسِ نِظامی کرنا چاہے تو اسے بسااوقات اِس طرح کے طعنے ملتے ہیں کہ ”کیا مولوی بَن کر مسجد کی روٹیاں توڑے گا؟ عالِم بن کر کھائے گا کیا؟M.Aکر یا ڈاکٹر یا اِنجنیئر وغیرہ بن تاکہ اچھا روزگار ملے“۔ یہ بات صِرف طَعنوں کی حَد تک نہیں رہتی بلکہ بعض اوقات دِینی تعلیم سے روکنے کے لئے باقاعدہ حَربے اِختیار کئے جاتے ہیں مثلاً اگر بیٹا دَرسِ نِظامی میں داخلہ لے لیتا ہے تو اب اس سے کما کر لانے کا مُطالبہ کیا جاتا ہے حالانکہ گھر میں مَعاشی تنگی کا سامنا بھی نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف دُنیوی تعلیم دِلوانے کے لئے پہلے اسکول میں دس سال اور پھر کالج اور یونیورسٹی میں کئی کئی سال جیب سے پیسے دے کر پڑھاتے ہیں۔اِس تعلیمی عرصے میں والدین ہر طرح کی سہولت دے کر اَولاد کو تعلیم کے لئے بالکل فارِغ کر دیتے ہیں۔اگر اپنا ذاتی کاروبار ہو تو اس میں بھی دَخل اندازی سے منع کرتے ہیں تاکہ پڑھائی میں کوئی حَرج نہ ہو۔ یوں مُعاشرے میں دُنیوی تعلیم حاصِل کرنے والوں کی خوب حوصلہ اَفزائی کی جاتی ہے۔ مختلف اِداروں کی طرف سے ان طُلَبا کو اسکالر شپ اور نوکریاں دی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ گلی گلی اسکول کُھلے ہوئے ہیں لیکن دینی جامعات و مَدارس اس کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہیں۔ والدین سے میری درد بھری گزارش ہے کہ دُنیا ہی سب کچھ نہیں،اصل آخِرت ہے اور آخِرت میں ڈاکٹریٹ یا انجنیئرنگ کیا ہوا بیٹا کام نہیں آئے گا بلکہ حافِظِ قراٰن یا عالِمِ دِین بیٹا شَفاعت کرے گا جیساکہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:قیامت کے دِن عالِم و عابِد (یعنی عبادت گزار) کو اُٹھایا جائے گا۔ عابِد سے کہا جائے گا کہ جنَّت میں داخِل ہو جاؤ جبکہ عالِم سے کہا جائے گا کہ جب تک لوگوں کی شَفاعت نہ کر لو، ٹھہرے رہو۔(شعب الایمان، 2/268، حدیث:1717) یہ کہنا کہ مولوی بن کر کھائے گا کیا؟ یہ محض شیطانی وَسوسہ ہے۔ اللہ پاک نے سب کا رِزْق اپنے ذِمّہ کَرم پر لیا ہوا ہے۔ اور بے شک دِینی تعلیم حاصِل کرنے والے دُنیوی تعلیم والوں کے مقابلے میں زیادہ پُرسکون زندگی گزارتے ہیں۔
لہٰذا اپنی آخِرت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سارے ہی بچوں کو عالِمِ دِین اور حافِظِ قراٰن بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم اَز کم ایک بچے کو تو عالِم ِ دِین بنانے کی ضرور کوشش فرمایئے۔اللہ پاک نے چاہا تو عالِم بننے والا گھر بلکہ سارے خاندان والوں کی بخشش کا ذَریعہ بن سکتا ہے۔
(نوٹ:یہ مضمون 12محرم شریف1440ھ بمطابق 22ستمبر2018ء کو ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرنے کے بعد امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے نوک پلک درست کروا کے پیش کیا گیا ہے۔)
Comments