دوستی کا دن

کلاس روم

دوستی کا دن

*مولانا حیدر علی مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہونے کی وجہ سے سمر کیمپ لگے ہوئے تھے، بچے عموماً گھریلو کپڑوں میں ہی آتے تھے اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ دیگر مفید Activities بھی جاری رہتی تھیں اس سب کے باوجود آج اسکول کے بچوں میں معمول سے زیادہ گہما گہمی تھی۔ چھٹی کلاس کے انچارج سر بلال رضا تھے، آج جیسے ہی وہ کلاس روم میں داخل ہوئے تو بچے خوش گپیوں میں مگن تھے جو سر کو آتے دیکھ کر فوراً ادب سے کھڑے ہو گئے۔ سر نے مسکراتے ہوئے بچوں کو سلام کیا اور بچوں کے جواب دینے کے بعد وہ ان کے ساتھ ساتھ خود بھی درود شریف پڑھنے لگے۔

سر بلال ایک سینیئر ٹیچر تھے، ویسے مضمون (Subject) تو ان کا اسلامیات تھا لیکن ایسا لگتا تھا ہر موضوع پر دنیا جہان کی کتابیں پڑھ رکھی ہیں، ان کی ایک بات سبھی کو بہت اچھی لگتی تھی بلکہ دیکھا دیکھی تو اب دوسرے اساتذہ بھی فالو کر رہے تھے، وہ بات یہ کہ سر بلال جس بھی کلاس میں پیریڈ پڑھانے جاتے تو اس کی ابتدا درود شریف سے کرواتے، سارے بچے سر بلال کے ساتھ باادب کھڑے ہو کر تین بار درود شریف پڑھتے اس کے بعد پڑھائی شروع ہوتی تھی۔

بچو! کس بات کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں؟ درود شریف پڑھنے کے بعد بچے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو سر بلال نے مختلف ڈیسکوں پر رکھے گفٹ باکسز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

کلاس مانیٹر محمد معاویہ بولے: سر آج Friendship Day ہے ناں تو ہم لوگ اپنے دوستوں کے لئے گفٹس لائے ہیں۔

سر آپ کے بھی دوست ہیں کیا، دوستی کا دن نہیں مناتے؟ نعمان نے پوچھا تو سر بلال کہنے لگے: کیوں نہیں بیٹا! میرے بھی دوست ہیں اور ہر ایک کے ہونے بھی چاہئیں کیونکہ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ ”تنہاوہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔“ لیکن ہمیں دوست بنانے سے پہلے یہ سیکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں کیسے دوست بنانے چاہئیں۔ پہلے آپ لوگ مجھے بتائیں کہ آپ اپنے دوست میں کون سی خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں؟

کلاس کے ایک ذہین بچے اُسید رضا نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا اور سر سے اجازت ملنے پر کہا: سر میں چاہتا ہوں میرا دوست مطلبی نہ ہو۔

بہترین خوبی! سر بلال نے اپنی بات شروع کی: آپ کو پتا ہے ناں مسلمانوں کے چھٹے خلیفہ راشد تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہ علیہ، آپ بڑے ذہین اور انصاف کرنے والے حکمران تھے، آپ فرماتے ہیں: ” مطلب پرست لوگوں کودوست نہ بناؤ کیونکہ مطلب پوراہوتے ہی ان کی محبت دم توڑجاتی ہے۔“ ([1])

کلاس مانیٹر نعمان اجازت ملنے پر بولے: سر میرا دوست جھوٹا نہ ہو۔

سر بلال: بچو! ہم میں سے کون ہے جس نے امام زین العابدین کا نام نہ سنا ہوگا، آپ نے اپنے بیٹے کو پانچ قسم کے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کیا تھا: (1)فاسق (2)کنجوس (3)رشتہ داری توڑنے والا (4)بےوقوف (5)جھوٹا۔ امام زین العابدین نے جھوٹے سے دوستی نہ کرنے کی وجہ خود ہی اپنے بیٹے کو یہ بتائی کہ ”ایسا شخص سَراب کی طرح ہوتا ہے۔“ یعنی دھوکا دیتا ہے۔([2])

اچھا بچو یہ توآپ کی پسند تھی لیکن اسلام ہمارے لئے کیسے دوست پسند کرتا ہے، آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں: سب سے پہلے تو دوست بناتے ہوئے خیال رکھنا چاہئے کہ کسی ایسے شخص کو دوست نہ بنائیں جو اللہ و رسول سے دور کر دے اور ایمان کا دشمن ہو ورنہ خدانخواستہ بروزِ قیامت افسوس کے ساتھ انگلیاں چباتے ہوئے کہنا پڑ سکتا ہے: ”ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں  نے فلاں  کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ “ ([3])اور آپ کو پتا ہے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیسے شخص کو دوست بنانے کی نصیحت کی ہے: جو اللہ کو یاد کرنے میں آپ کا مددگار ہو اور جب آپ اپنے رب کو بھول جائیں تو وہ آپ کو یاد دلادے۔([4]) لہٰذا بچّو وفادار، مخلص اور نیک لوگوں کو دوست بنانا چاہئے اور پھر سر نے مسکراتے ہوئے کہا: سب سے اہم بات پہلے ہمیں خود نیک، وفادار اور مخلص بن جانا چاہئے تاکہ ہمیں نہ سہی کسی اور کو تو ا چھا دوست مل جائے گا۔ سر کی آخری بات پر سبھی بچے مسکرا اٹھے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی



([1])حلیۃ الاولیاء،5/377،رقم:7466

([2])البدایہ والنہایہ،6/232

([3])پ19، الفرقان: 28

([4])احیاء العلوم،1/108


Share