لڑکی کو قرآنِ کریم کے سائے میں رخصت کرنا کیسا؟

اسلامی بہنوں کے شرعی مسائل

*مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

(1)لڑکی کو قرآنِ کریم کے سائے میں رخصت کرنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شادیوں کے موقع پر لڑکی کی رخصتی کے وقت یہ صورت دیکھنے میں آتی ہے کہ لڑکی کے سر پر قرآن پاک اٹھا کر اسے قرآن کے سائے میں رخصت کیا جاتا ہے،یہ عمل از روئے شرع درست ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

قرآن پاک بے شمار فوائد و برکات کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔جس طرح اس کا پڑھنا، یاد کرنا،سننا،اس پر عمل کرنا اور اس میں غور وفکر کرنا حصول خیر و برکت کا سبب ہے، یونہی قرآن پاک کا اوراق پر مشتمل نسخہ بھی رحمت و برکت کا ذریعہ ہے،لہٰذا اس سے برکت حاصل کرنا جائز و مستحب عمل ہے۔ رخصتی کے وقت دلہن کے سر پر قرآن پاک اٹھا کر رخصت کرنے سے بھی یہی مقصود ہوتا ہے کہ اس عمل سےقرآن پاک کی برکت حاصل ہوجائے،لہٰذا مذکورہ نیت سے یہ عمل جائز و باعث ثواب ہوگا،مگر اس کے ساتھ چند امور ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔

(1)مذکورہ صورت میں باوضو شخص قرآن پاک کو پکڑے یا پھر بے وضو ہونے کی صورت میں کسی جداگانہ کپڑے یا غلاف میں پکڑے، کیونکہ بے وضوشخص کا قرآن پاک کو چھونا، جائز نہیں۔

(2)چونکہ مذکورہ عمل کے ذریعے قرآن پاک سے برکت حاصل کرنا مقصود ہے،لہٰذا اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ گانے باجے یا آتش بازی وغیرہ امور ممنوعہ کی کوئی صورت نہ ہو کیونکہ ایک تو یہ قرآن مجید کی بے ادبی ہے اور دوسرا یہ بات ہرگز درست نہیں کہ ایک طرف قرآن کریم سے برکت لی جارہی ہو اور دوسری جانب قرآن کریم کے احکام کی ہی نافرمانی کی جائے۔ یوں تو قرآن کریم پاس نہ ہو، اس وقت بھی ان گناہوں سے بچنا ضروری ہے، مگر قرآن کی موجودگی میں اس کی عظمت واہمیت کے پیش نظر خاص طور پر ان سے بچنا ضروری ہوجائے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)جمعہ کو خواتین پہلی اذان کا جواب دیں یا دوسری؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ جمعہ کو جو پہلی اذان ہوتی ہے تو خواتین پہلی والی کا جواب دیں گی یا دوسری کا یا دونوں کا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

خواتین کے لئے جمعہ کی اذانِ اول اور ثانی دونوں کا جواب دینا مستحب ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہےکہ اذان اول کے جواب کا حکم تو دیگر اذانوں کی طرح ہے کہ ان میں باہم کوئی فرق نہیں، رہا اذانِ ثانی کا جواب تو وہ صرف مقتدیوں کو منع ہے اس کے علاوہ کو نہیں حتی کہ خود خطیب اس کا جواب دے سکتا ہے، اور خواتین چونکہ جمعہ کے لئے نہیں آتیں بلکہ گھروں میں ہوتی ہیں تو ان کےلئے اس اذان کے جواب کی ممانعت نہیں، بلکہ وہ اس کا جواب دے سکتی ہیں۔ اذان ثانی کے جواب دینے کی کراہت مقتدیوں کے ساتھ خاص ہے اور جو مقتدی نہیں وہ جواب دے سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی


Share