حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو یاد کرو (دوسری اور آخری قسط)

تفسیر قراٰن کریم

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو یاد کرو(دوسری اور آخری قسط)

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

تبلیغِ حق میں آزمائشوں کا مقابلہ:

دعوتِ توحید اور ردِّ شرک کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے جب آپ عَلَیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور قوم کو بتوں کی بے بسی دکھانے کے لیے فرمایا کہ ان بتوں سے پوچھ لو کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا تو قوم نے سدھرنے کی بجائے آپ عَلَیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کو آگ میں جلادینے کا فیصلہ کیا، جس کے مقابلے میں آپ عَلَیہ الصّلوٰۃُ والسّلام ثابت قدم رہے اور خدا وند کریم نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۶۸) قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹))

ترجمۂ کنزالعرفان: بولے:  ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔ ہم نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ (پ 17، الانبیآء:68، 69)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پھر راہِ خدا میں ہجرت بھی کی اور اپنے وطن، علاقے اور لوگوں کو خدا کی خاطر چھوڑ دیا۔ قرآن مجید میں ہے کہ آپ عَلَیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے فرمایا:

( وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۹۹))

ترجمۂ کنزالعرفان: اور ابراہیم نے کہا: بیشک میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں،اب وہ مجھے راہ دکھائے گا۔ (پ 23، الصّٰٓفّٰت:99)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

محبت الہٰی:

حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی سیرت طیبہ میں محبتِ الٰہی کا عنصر بہت غالب نظر آتا ہے کہ محبت کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل محبوب کی خاطر ہر شے کو قربان کردینا ہے اور حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اس کا عملی ثبوت دیا۔ آپ عَلَیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی جان قربانی کے لیے پیش کردی، جیسا کہ فرمایا گیا:

( قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۶۸) قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹) )

ترجمہ کنزالعرفان:بولے: ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔ہم نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔(پ 17، الانبیآء:68، 69)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

آپ عَلَیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنے اکلوتے پیارے بیٹے کوخدا کی محبت میں قربانی کے لیے پیش کردیا، چنانچہ فرمایا:

(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲))

ترجمہ کنزالعرفان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا توابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے ؟بیٹے نے کہا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(پ 23، الصّٰٓفّٰت:102)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 پھر خدا کی محبت میں، خدا کے حکم پر اپنی اولاد کو بیابان میں چھوڑ دیا، چنانچہ قرآن مجید میں ہے:  

(رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ -رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ(۳۷))

ترجمہ کنزالعرفان: اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے عزت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں ٹھہرایا ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی۔ اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں تَو تُو لوگوں کے دل اُن کی طرف مائل کردے اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرماتاکہ وہ شکر گزار ہوجائیں۔(پ 13، ابرٰھیم:37)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

بلکہ آپ عَلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی پوری زندگی ہی خدا کی محبت میں وقف کردی اور حقیقت میں اس آیت کے مصداق بن گئے۔

(قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲))

ترجمۂ کنزالعرفان: تم فرماؤ، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔(پ 8، الانعام:162)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور فرمایا:

(وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓــٴَـتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ(۸۲))

ترجمہ کنزالعرفان: اور وہ جس سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری خطائیں بخش دے گا۔(پ 19، الشعرآء:82)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب کی بارگاہ میں اسی سے امید رکھنا اور اُس کی رضا كا طالب رہنا بھی رب کی محبت کی نشانی ہے۔

آزمائشوں میں کامیابی :

حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہر امتحان میں کامیاب رہے حتی کہ رب کریم نے خود اُن کی کامیابی کا اعلان فرمایا، چنانچہ ایک جگہ فرمایا:

(وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ   )

ترجمۂ کنز العرفان: اور یاد کروجب ابراہیم کو اس کے رب نے چندباتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا۔(پ1، البقرۃ:124)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور ایک جگہ فرمایا:

(وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷))

ترجمہ کنز العرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔(پ 27، النجم:37)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور ایک جگہ ان کی تاریخی کامیابی کو یوں بیان فرمایا:

(فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ(۱۰۳) وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ(۱۰۴) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَاۚ-اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۰۵) اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ(۱۰۶) وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ(۱۰۷) وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ(۱۰۸) سَلٰمٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ(۱۰۹) كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۱۰) اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۱۱))

ترجمۂ کنزالعرفان: تو جب ان دونوں نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا (اس وقت کا حال نہ پوچھ)۔ اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم!۔بیشک تو نے خواب سچ کردکھایاہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔ بیشک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔اور ہم نے اسماعیل کے فدیے میں ایک بڑا ذبیحہ دیدیا۔ اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ابراہیم پرسلام ہو۔ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔(پ 23، الصّٰٓفّٰت:103تا 111)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 شکر:

حضرت سیدنا ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی عادتِ شکر کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں دی ہے، چنانچہ فرمایا:

(شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-)

ترجمہ کنزالعرفان: اُس کے احسانات پر شکر کرنے والے۔(پ 14، النحل:121)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

صبرو حلم و شفقت علی الخلق:

حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کے صبر کا اظہار تو آپ کے ہر امتحان سے ہوتا ہے اورقومِ لوط سے عذاب مؤخر کرنے پر اِصرار کی وجہ سے آپ علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کے حِلم اور مخلوق پر شفقت کی گواہی بھی قرآن مجید نے دی ہے، چنانچہ فرمایا:

(اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ (۷۵))

ترجمہ کنزالعرفان: بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا، بہت آہیں بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔ (پ 12، ھود:75)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 رجوع الی اللہ:

ہر معاملے میں خدا کی طرف رجوع کرنا اور باربار اللہ کریم کی طرف رجوع کرنا اور اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے رہنا اور اس سے دعا کرتے رہنا خدا کے پسندیدہ بندوں کے اوصاف میں سے ہے اور حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی قرآن مجید میں مذکور کثیر دعائیں اِن تمام اُمور کی دلیل ہیں۔آپ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:

(وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓــٴَـتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ(۸۲) )

ترجمہ کنزالعرفان: اور وہ جس سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری خطائیں بخش دے گا۔(پ 19، الشعرآء:82)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایک مقام پر خدا کی مہربانیوں اور اس کے حضور توجہ کا یوں ذکر فرمایا:

(الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ(۷۸) وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ(۷۹) وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِﭪ(۸۰) وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ(۸۱))

 ترجمہ کنزالعرفان:جس نے مجھے پیدا کیا تو وہ مجھے ہدایت دیتا ہے۔اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ اور وہ جومجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا۔(پ 19، الشعرآء: 78تا 81)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایک جگہ ساری دنیا سے منہ پھیر کر رب کی طرف رجوع کا یوں ذکر کیا:

(اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹))

ترجمہ کنزالعرفان: میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (پ 7، الانعام:79)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایک جگہ فرمایا:

(اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۹۹))

ترجمہ کنزالعرفان: بیشک میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں،اب وہ مجھے راہ دکھائے گا۔ (پ 23، الصّٰٓفّٰت:99)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

کامل الایمان، بلند ہمت، صابر وشاکر، حلیم ومنیب حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی زندگی کے چند گوشوں پر کلام کیا گیا۔ اِن سب اَوصاف کو ہمیں عملاً اَپنانے کی ضرورت ہے، کہ آپ کی حیاتِ طیبہ میں ہمارے لیے بہترین رہنمائی اور نورِ ہدایت موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی سِیرتی خوبی کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

(قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۚ-)

ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں تمہارے لیے بہترین پیروی تھی۔ (پ 28، الممتحنۃ: 4)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

آج ہمیں آپ عَلَیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے وجود میں خدا سے محبت، مخلوق پر شفقت، خدا کی طرف کثرت سے رجوع، آزمائشوں اور تکلیفوں پر صبر، رضائے الٰہی کی طلب،ہر حال میں حق گوئی اور ایمانِ کامل سے اپنے دل کو منور کرنے کی حاجت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کا فیضان نصیب فرمائے۔ آمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code