انبیائے کرام کے واقعات
حضرت سیدنا الیاس علیہ السّلام(قسط:3)
*مولانا ابوعبید عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء
بادشاہ نے مہلت مانگی
بادشاہ عامیل آپ سے کہنے لگا: آپ دلیل تو لے آئے ہیں لیکن آپ ہمیں آج کے دن کی مہلت دے دیں تاکہ ہم آپ کی دعوتِ دین کو قبول کرنے میں غورو فکر کرسکیں، آپ (یہ کہہ کر) واپس چلے آئے کہ اگلے دن پھر آؤں گا اور دعوتِ دین دوں گا، آپ کے جانے کے بعد بادشاہ نے قوم کے دوسرے بادشاہوں اور علمائے یہود کو جمع کیا اور کہا: تم لوگ اس مرد کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو؟ علمائے یہود کہنے لگے:ہم نے اس مرد کی صفات توریت میں پائی ہیں کہ انہیں نبی بناکر بھیجا جائےگا اور آگ،پہاڑ اور شیر ان کے تابعدار ہوں گے، اور جو ان کی آواز سنے گا وہ عاجز ہو کر فرمانبردار ہوجائے گا۔([1])
بادشاہ نے اعتبار نہ کیا
بعض علمائے یہود کہنےلگے: اے بادشاہ! ان لوگوں نے اپنی باتوں میں جھوٹ بولا ہے، یہ مرد تو جادوگر ہے(مَعاذَ اللہ) تُو اس کے معاملے میں خوف زدہ مت ہو۔ بادشاہ (کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی لہٰذا اس) نے سچ بولنے والے علمائے یہود کو سخت سزا دی اور حضرت الیاس کے معاملے میں سخت رویہ اپنالیا۔([2])
بادشاہ آجاب کی بدنصیبی
بادشاہ آجاب جو حضرت الیاس علیہ السلام پر ایمان لاچکا تھا اس نے بھی آپ علیہ السَّلام کی مخالفت کردی بادشاہ آجاب کی بیوی نے کہا: اے بادشاہ! تو ایمان لانے کے بعد سچے دین سے پھر چکا ہے لیکن میں حضرت الیاس علیہ السلام کے دین سے نہیں پھروں گی، پھر اس نے بادشاہ آجاب سے علیحدگی اختیار کرلی۔([3])
نورانی ستون
حضرت الیاس علیہ السَّلام نے محل کے قریب ایک سائبان بنالیا بادشاہ عامیل کی ملکہ بھی نیک عورت تھی اپنے شوہر سے چُھپ کر چپ چاپ حضرت الیاس کے پاس پہنچی اور رات کے وقت آپ کی نگرانی کرنے لگی، آپ اللہ کی عبادت میں مصروف تھے، اچانک ملکہ نےایک نورانی ستون دیکھا جو سائبان سے آسمان تک اونچا تھا،یہ دیکھ کر ملکہ آپ علیہ السَّلام پر ایمان لے آئی اور آپ کے فرمانبرداروں میں شامل ہوگئی، بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ملکہ کو آگ میں ڈالنےکا حکم دیا، سپاہیوں نے ملکہ کو آگ میں ڈال دیا،آپ علیہ السَّلام نے اللہ پاک سے دعا کی تو آگ نے ملکہ کو کچھ نقصان نہ پہنچایا، آخر کار بادشاہ نےملکہ کو آزاد کردیا اور ملکہ اپنے کافر شوہر سےعلیحدہ ہوگئی۔([4])
بادشاہ عامیل کی خوش نصیبی
پھر بادشاہ کا بیٹا مر گیا، بادشاہ خوب رویا دھویا اور اپنے باطل معبود کے پاس جاکر فریاد کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا (اور بیٹا زندہ نہ ہوا) یہ دیکھ اسے اپنے باطل معبود پر غصہ آگیا، پھر حضرت الیاس علیہ السَّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میرا بیٹا مر چکا ہے اور میرا خدا اسے زندہ نہیں کرسکتا، کیا آپ اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ اسے زندہ کردیں؟آپ نے فرمایا: یہ میرے ربّ پر آسان ہے، پھر آپ نے اللہ سے دعا کی تو لڑکا یہ کہتے ہوئے زندہ ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت الیاس علیہ السّلام اس کے بندے اور رسول ہیں، یہ دیکھ کر بادشاہ آپ پر ایمان لے آیا اور بادشاہت کو چھوڑ چھاڑ کر آپ کے پیچھے چل پڑا پھر اس نے صُوف (اُون) کا لباس پہن لیا اور اللہ پاک کی عبادت میں مصروف ہوگیا اور مرتے دم تک ایمان پر ثابت قدم رہا اس کے بیٹے اور ملکہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ حضرت الیاس علیہ السَّلام قوم کو دینِ برحق کی طرف بلاتے رہے لیکن قوم نے دعوتِ دین قبول نہ کی اور اپنی گمراہی اور کفر پر ہی اَڑی رہی۔([5])
بنی اسرائیل کی قحط سالی
اللہ پاک نےحضرت الیاس علیہ السَّلام کو وحی فرمائی کہ قومِ بنی اسرائیل کو دین کی دعوت دیں اور عذابِ الٰہی سے ڈرائیں کہ اگر ایمان نہ لائے تو اللہ بارش کو روک دے گا اور انہیں قحط میں مبتلا کردے گا، آپ نے قوم کو دعوتِ دین دی مگر قوم نے کہا: ہم نہ تو آپ پر اور نہ آپ کے رب پر ایمان لائیں گے جو کرنا چاہتے ہو کرلو۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک دی، چشموں کا پانی سوکھ گیا اور درخت پر پھل آنابند ہوگئے، جو کچھ پاس تھا قوم نے وہ سب کھاکر ختم کردیا پھر مویشیوں کا گوشت کھانے لگے، پھر کچھ نہ ملا تو کتے،بلی اور چوہے کھانے لگے جب یہ بھی ختم ہوگئے تو مَرے ہوئے لوگوں کاگوشت کھانے لگے۔([6])
پرندہ گوشت اور کھانا لایا
پھر اللہ نے آپ علیہ السَّلام کی طرف وحی فرمائی کہ ان کی طرف جائیں اور دینِ حق کی دعوت دیں، حضرت الیاس علیہ السَّلام ان کی بستیوں کی طرف بڑھے، سب سے پہلی بستی میں پہنچے تو ایک بوڑھی عورت کے پاس سے گزر ہوا، آپ نے اس سے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھانا ہے؟ اس نے جھوٹے خدا کی قسم کھاتے ہوئے کہا: میرے خدا بعل کی قسم! ایک عرصہ گزر گیا ہے کہ میں نے روٹی نہیں گوندھی۔ آپ نے فرمایا: تُو اللہ پر ایمان کیوں نہیں لے آ تی؟ اس بوڑھی عورت نے کہا: میرا بیٹا یَسَع (حضرت) الیاس کے دین پر ہے اور میں نہیں سمجھتی کہ اسے اس دین پر ایمان لانے سے کوئی فائدہ ملا ہو، اب وہ بھوک سے مرنے کے قریب ہے، یہ سن کر آپ نے بلند آواز سے کہا: اے یسع! کیا تم روٹی کھانا پسند کروگے؟ (گھر کے اندر سے) یسع نے ایک چیخ ماری: میرے لئے روٹی کہاں سے آئے گی؟ یہ کہہ کر یسع کا انتقال ہوگیا، بوڑھی عورت رونے اور اپنے منہ پر تھپڑ مارنے لگی،([7]) آپ نے اس بوڑھی عورت سے فرمایا: اگر اللہ پاک تمہارے بیٹے کو زندہ کردے اور تمہارا من پسند کھانا تم کو دے دے تو کیا تم اللہ پر ایمان لے آؤگی؟ بوڑھی عورت نے کہا: جی ہاں! میں اللہ پر ایمان لے آؤں گی، آپ کھڑے ہوگئے اور دو رکعت نماز ادا کی پھر اللہ کریم سے دعا کی تو بوڑھی عورت کے بیٹے زندہ ہوگئے اور کلمہ پڑھنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت الیاس علیہ السلام اس کے بندے اور رسول ہیں، یہ دیکھ کر وہ بوڑھی عورت بھی اللہ پر ایمان لے آئی اسی دوران ایک پرندہ ایک بڑا برتن لے کر اُترا اس میں گوشت اور کھانا تھا جسے وہ دونوں کھا کر سیر ہوگئے، پھر وہ مومنہ بوڑھی عورت باہر نکلی اور اپنی قوم کو پوری بات بتاکر ڈرایا لیکن قوم نے اس مومنہ کا گلا گھونٹ کر اسے شہید کردیا۔([8])
بوڑھی مومنہ زندہ ہوگئیں
بیٹے حضرت یسع کو والدہ کی شہادت کا بہت صدمہ ہوا یہ دیکھ کر آپ نےفرمایا: اللہ کریم عنقریب تمہاری والدہ کو زندہ کردے گا اور تم دونوں ماں بیٹے کو اس قوم کے لئے ایک بڑی نشانی بنادے گا۔ پھر آپ اپنی قوم کے پاس گئے تو دیکھا کہ سب لوگ اس مومنہ کی لاش کے قریب جمع ہوچکے تھے اور اسے کھانا چاہتے تھے، آپ نےاپنی آواز بلند کرکے انہیں پکارا تو سب لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور کہنے لگے:تم یقیناً (حضرت) الیاس ہو،آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ کریم نے اس بوڑھی مومنہ کو زندہ کردیا۔([9])
قوم کی قحط سالی ختم ہوئی
اب قوم آپ کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنےلگی: عرصہ سات سال سے ہم جس پریشانی میں ہیں آپ اسے کیوں نہیں دیکھ رہے؟آپ علیہ السَّلام نے سرزنش کرتے ہوئےفرمایا: تم نے باطل معبود بعل کو کیوں نہیں پکارا کہ وہ تمہاری پریشانی دور کردیتا، قوم نے کہا: ہم نے اسے پکارا تھا لیکن اس نے ہماری کوئی مدد نہیں کی، آپ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو کیا تم اللہ پر ایمان لے آؤگے؟ انہوں نے کہا ہاں! ہم ایمان لے آئیں گے۔قوم کی بات سن کر آپ نے اللہ پاک سے دعا کی تو اللہ کریم نے ان پر بارش برسادی ان کی نہریں بہہ نکلیں، زمین سرسبز وشاداب ہوگئی، پھر قوم کے وہ لوگ جو بھوک کی وجہ سے مر گئے تھے اللہ کریم نے ان سب کو زندہ کردیا۔
قوم کی نافرمانی
لیکن یہ لوگ اتنے انعامات ملنے کے باوجود اللہ پر ایمان نہ لائے بلکہ اور زیادہ کفر اور نافرمانی کرنے لگےآپ نے انہیں کفر سے روکا انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرایا اور انہیں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور فضل کو یاد دلایا مگر یہ لوگ اپنے کفر سے باز نہ آئے اور کہنے لگے:قحط سالی کے دن ختم ہوگئے ہیں اور بہت مشکل ہے کہ کبھی لوٹ کر آئیں، اگر کبھی دوبارہ قحط سالی ہوئی بھی توہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ ہم اپنے گھروں میں اتنا سارا سامان جمع کرچکے ہیں جو ہمیں ایک طویل عرصے تک کافی ہوجائےگا، ان کی بات سن کر آپ نے قوم کے خلاف دعا کی اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔([10])حضرت یسع نے حضرت الیاس کی پیروی کی اور ان کے ساتھ ساتھ رہنے لگے پھر ایک وقت آیا کہ حضرت الیاس بوڑھے ہوگئے اس وقت حضرت یسع جوان تھے۔([11])
سات سال کا عرصہ پہاڑ پر
ایک روایت کے مطابق جب بادشاہ آجاب نے حضرت الیاس علیہ السَّلام کو اذیت دینے اور قتل کرنے کاارادہ کرلیاتو آپ نے ہجرت کرلی۔ اور ایک دشوار اور بڑے پہاڑ پر چڑھ گئے جس میں ایک غار تھا بادشاہ کے خوف سے آپ نے وہاں سات سال کا عرصہ گزارا، زمین کے پودے اور درختوں کے پھل کھاکر گزارا کرتے رہے، بادشاہ نے آپ کو بہت ڈھونڈوایا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بادشاہ کی دست برد سے محفوظ رکھا۔
بادشاہ کا بیٹا بیمار ہوگیا
سات سال پورے ہوگئے تو اللہ پاک کے حکم سے بادشاہ کا بیٹابیمار ہو گیا بادشاہ اپنے بیٹے سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا بیماری نے شدت پکڑلی بادشاہ نے اپنے باطل معبود بعل سے بیٹے کی شفایابی مانگی لیکن بیٹے کو صحت نہ ملی اور بیماری بڑھتی چلی گئی، بادشاہ نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ کسی طرح بیٹا صحت یاب ہوجائے مگر بیٹے کو صحت نہ مل سکی۔([12])
(جاری ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments