سفرنامہ
قطبِ مغرب کی بارگاہ میں (قسط:02)
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء
قطبِ مغرب کے مزار شریف کا سفر اگلی صبح 16دسمبر 2022ء بروز جمعۃ المبارک نمازِ فجر کے بعد ہم نے قطبِ مغرب حضرت سیدنا عبدالسلام مشیش رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف کی طرف سفر شروع کیا۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا مزار مبارک فاس کی طرف جاتے ہوئے تقریباً 65 کلومیٹر دور جبلِ علم نامی پہاڑ کی چوٹی پر، شاہ بلوط کے ایک درخت کے نیچے ہے۔ ان کے نام کے ساتھ مشیش اور بشیش دونوں طرح بولا اور لکھا جاتا ہے۔
مقامی لوگوں کی اولیائے کرام سے محبت راستے میں ہم نے دیکھا کہ فاصلے کی نشاندہی کے لئے جگہ جگہ جو بورڈ لگے ہوئے تھے وہ بزرگانِ دین کے مزارات کے نام سے تھے۔ نیز یہ بھی مشاہدہ ہوا کہ یہاں کے مقامی لوگوں کو اور کسی شخصیت کے مزار کے بارے میں معلومات ہوں یا نہ ہوں لیکن حضرت مولائی ادریس، حضرت مولائی عبدالسلام مشیش اور سیدی محمد بن سلیمان جَزولی رحمۃُ اللہِ علیہم کے مزارات مبارکہ کے بارے میں ضرور علم ہوتا ہے۔ ان باتوں سے ان اولیائے کرام کی عظمت و شہرت اور مقامی لوگوں کی ان سے عقیدت ومحبت کااندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قطبِ مغرب کا ذکرِ خیر حضرت سیدنا عبدالسلام مشیش رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت باسعادت گاؤں بنی عروس (ضلع طنجہ) میں ہوئی۔ بعد میں آپ عرائش شہرکے قریب جبل علم میں منتقل ہوگئے۔ آپ کا شجرہ نسب نواسۂ رسول حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ سے جاملتا ہے۔([1])
7 سال کی عمر میں سلوک و معرفت کی راہ اختیار فرمالی اور 16 برس تک سیاحت کرتے رہے([2]) آپ کے پہلے استاد شیخ عبد الرحمٰن مدنی زَیّات رحمۃُ اللہِ علیہ ہیں،آپ کی شہادت 622ھ میں ہوئی۔([3])
قطبِ وقت حضرت سیدنا عبدالسلام مشیش رحمۃُ اللہِ علیہ کی شہرت سارے شمالی مراکش میں پھیل گئی تھی، آپ ممالک مغرب میں اسی پائے کے قطب مانے گئے جیسے مصر میں امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ کا مقام ہے۔([4])
قطبِ مغرب رحمۃُ اللہِ علیہ پہاڑ کی چوٹی پر مقیم تھے۔ سلسلہ شاذلیہ کے بانی و امام سید نا ابوالحسن شاذلی رحمۃُ اللہِ علیہ آپ سے ملاقات کیلئے اوپر چڑھنا شروع ہوئے تو آپ نے اپنی خانقاہ سے باہر نکل کر ان کا پورا سلسلہ نسب بیان کر دیا، پھر فرمایا: تم ہمارے پاس بحیثیت ایک فقیر آئے ہو تو اس فقر کے عوض تم نے دنیاو آخرت کی دولت حاصل کرلی ہے۔([5])
حضرت سید نا ابوالحسن شاذلی رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ سے بیعت کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے ابو الحسن شاذلی رحمۃُ اللہِ علیہ کو قُطب بننے (اولیائے کرام کے مخصوص مقام پر فائز ہونے) کی بشارت دی، پھر روحانی تربیت فرمانے کے بعد افریقہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔([6])
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے انہیں کئی نصیحتیں فرمائیں جن میں سے یہ بھی ہے: اللہُ اللہُ وَالنَّاسُ النَّاس یعنی اللہ اللہ ہے اور لوگ لوگ ہیں، ان کے ذکر سے اپنی زبان کو بچانا،اللہ پاک کی یاد کو ہر وقت دل میں بسائے رکھنا، لوگوں پر بھروسا نہ کرنا، اپنے فرائض کی پابندی کرنا، خلق خدا کی طرف توجہ مت کرنا یہاں تک کہ اللہ پاک کی طرف سے تمہیں ایسا کرنے کا حکم نہ مل جائے۔ اللہ کریم کی راہنمائی ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوگی۔([7])
قطبِ مغرب کے قدموں میں حاضری جب ہم حضرت سیدنا عبدالسلام مشیش رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف کے قریب پہنچے تو اس وقت بارش جاری تھی، تیز ہوائیں چل رہی تھیں اور موسم بھی ٹھنڈا تھا، ایسی صورتِ حال میں پہاڑکی اونچائی کی طرف چڑھنا میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔ بارش کی صورتِ حال دیکھ کر ہم نے وہیں سے پلاسٹک کے اَپَّر خرید کر پہن لئے اور اللہ کے ولی کے قدموں میں حاضری کے لئے پیدل اوپر کی طرف روانہ ہوئے۔ ہوا اور بارش کا زور واپس جانے پر اُبھار رہا تھا لیکن عاشقانِ اولیاء کاجذبہ یہ نعرہ لگارہا تھا: جانا ضرور ہے۔ اسی روحانی جذبے کے تحت آگے بڑھتے بڑھتے ہم پہاڑ کی چوٹی پر واقع مزار شریف کے پاس حاضر ہوگئے۔ قطبِ مغرب کا مبارک مزار قدیم پتھروں سے بنی ایک مختصر چاردیواری کے اندر ہے جس کے دو اطراف میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہیں۔ مزار شریف پر حاضری اس قدر مشکل ہونے کے باوجود عاشقانِ اولیاء کثرت سے حاضری کیلئے آتے ہیں جس سے صاحب مزار کے تصرف کے علاوہ یہاں کے لوگوں کی اولیائے کرام سے محبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
حضرت سیدنا عبدالسلام مشیش رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف کے پہلو میں دو اور مزارات بھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک آپ کے صاحبزادے کا جبکہ دوسرا آپ کے ایک خادم کا مزار ہے۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی نسبی اولاد ابھی تک چلی آرہی ہے اور شرفاء کے نام سے مشہور ہے۔ مزار شریف کے احاطے کے ارد گرد کئی قبریں موجود ہیں جن میں سے اکثر آپ کی اولا د کی جبکہ کچھ دیگر حضرات کی ہیں۔
اپنے مُردوں کو نیک بندوں کے قریب دفنائیں اگر ممکن ہو تو اپنے مُردوں کو اللہ پاک کے نیک بندوں کے قریب دفن کرنا چاہئے تاکہ اُنہیں اِن کے قُرب کی برکتیں حاصل ہوں۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اپنے مُردوں کو نیک لوگوں کے قریب دفن کرو کیونکہ میت کو بُرے پڑوسی سے تکلیف ہوتی ہے جیسا کہ زندہ کو بُرے پڑوسی سے تکلیف ہوتی ہے۔([8])
بہرحال ہم نے مزار شریف پر سلام پیش کیا اور دعا و ایصالِ ثواب کا سلسلہ کرکے واپس روانہ ہوگئے۔ واپس اترتے ہوئے پہاڑی چشمے سے اترتا پانی اور قدرت کے دلکش مناظر نہایت خوبصورت اور پرکشش تھے۔
مزار پر حاضری کا طریقہ مکتبۃ المدینہ کے رسالے ”مَزارات پر حاضری کا طریقہ“، صفحہ 1 پر ہے: کسى ولى کے مزار شریف پر حاضرى کا طرىقہ ىہ ہے کہ اگر ممکن ہوتو پائنتى یعنی قدموں کى طرف سے آئے۔ چہرۂ مُبارَکہ کى طرف مُنہ اور کعبے کى طرف پىٹھ کر کے کھڑا ہو، کم و بىش چار ہاتھ ىعنى دو گز دور رہے، اگر کوئى بالکل قرىب چلا گىا ىا زىادہ دُور رہ گىا تب بھى کوئى گناہ نہىں ہے۔ تلاوت اور دِیگر عبادات کرنے والے کو تشویش نہ ہو اِس لئے دَرمىانی آواز میں اِس طرح سلام عرض کرے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِىْ ىعنى اے مىرے آقا! آپ پر سَلام ہو۔ اب اىک بار سُورۂ فاتحہ، 11 مَرتبہ قُلْ ھُوَ اللہ شرىف اَوّل وآخر تىن تىن بار دُرُودِ پاک پڑھ کر اِىصالِ ثواب کرىں۔ پھر واپس ہوتے ہوئے اُلٹے قدموں پلٹیں تاکہ مزار شریف کو پیٹھ نہ ہو۔(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)
Comments