دین خیر خواہی ہے

حضرتِ سیّدنا تمیم داری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:اَلدِّينُ النَّصِيحَةُ یعنی دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی: کس کے لیے؟ ارشاد فرمایا:لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِاَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ یعنی اللہ کے لیے ، اس کی کتاب کے لیے ، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے لیے۔(مسلم،ص51، حدیث:196)

مذکورہ حدیث نبی رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی ان احادیث میں شمار کی جاتی ہے جن کو”جَوَامِعُ الْکَلِم“ کہا جاتا ہے ، یعنی وہ احادیث جن کے الفاظ بہت کم ہوتے ہیں لیکن علم وحکمت کے کثیر موتی ان میں موجود ہوتے ہیں ۔

حدیثِ مذکور کے راوی حضرتِ سیدنا تمیم داری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  ہیں آپ اور آپ کے بھائی سیدنا نعیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سن نو ہجری میں ایمان لے کر آئے ، بہت بڑے عابد و زاہد اور ساری رات اللہ جَلَّ شَانُہ کی عبادت میں گزارنے والے صحابی تھے، مسجد میں سب سے پہلے چراغ جلانے والے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہی تھے۔ (الاصابۃ ،ج1،ص487،رقم: 838)

حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے دین کو خیر خواہی کا نام دیا ہے جس کے لیے عربی زبان میں نصیحت کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، نصیحت کسی بھی شئے کو تمام آلائش سے پاک کرکے اسے خالص کرنے کو کہتے ہیں ، اسی طرح کسی شئے کے عیب کو دور کرنے اور اسے درست کردینے کو بھی عربی میں نصیحت کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں جن ہستیوں اوراشیاء کے لیے نصیحت کا حکم ہے، سب کے لیے  نصیحت کا معنی الگ الگ  ہیں ۔

اللہ تعالٰی کے لیے نصیحت کا معنی:اللہ تعالیٰ کو تمام خوبیوں کا جامع ماننا ، تمام عیوب سے پاک ماننا، اللہ تعالیٰ کو معبود برحق اور شریک سے پاک ماننا ، اس کی اطاعت کرنا، اس کی نافرمانی سے اجتناب کرنا ،اس کا شکر ادا کرنا،  اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرنا اور اس سےمحبت کرنا وغیرہ۔

کتابُ اللہ کے لیے نصیحت کا معنی :اس پر ایمان لانا یہ اعتقاد رکھنا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، کوئی اس کی مختصر ترین سورت کی مثل بھی نہیں لاسکتا ، اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تلاوت کرنا وغیرہ، یونہی اللہ  تعالیٰ کی دیگر کتابوں پر بھی ایمان لانا  کتابُ اللہ کے لیے نصیحت کے معنی میں شامل ہے ۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کے لیے نصیحت کا معنی:اُن کی رسالت کی تصدیق کرنا ، جو کچھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے لے کر آئے اس پر ایمان لانا، ان کی اطاعت کرنا، ان کی تعظیم وتوقیر کرنا ، ان کی سنت پر عمل کرنا اِس کی دعوت کو عام کرنا ، ان سے اور ان کے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے محبت کرناوغیرہ،صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَ صحبہ و بارک وَ سَلَّمَ

مسلمانوں کے ائمہ کے لیے نصیحت کا معنی:اگر اس سے مراد حکام کو لیا جائے تو معنی ہوگا جو کچھ شریعت کے مطابق حکم کریں اس میں ان کی بات ماننا، ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا ، ان کو حق کی تلقین کرنا وغیرہ۔اور علما ہوں تو اس کا معنی ہوگا کہ شرعی احکام میں ان کی اطاعت کرنا ان کی تعظیم وتکریم کرنا وغیرہ

اور عام مسلمانوں کے لیے نصیحت کا معنی : اُن کی دین ودنیا کے  بھلائی کے کاموں  میں رہنمائی کرنا ، اس کے لیے قول وفعل کے ذریعے ان کی مدد کرنا ، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنا وغیرہ۔ (جامع العلوم والحکم، ص106، 107، الفتح المبین،ص 253تا257،  المعین علی تفہم الاربعین، ص226تا228،)


Share