کچرے کے ڈھیر

صفائی ستھرائی بہترین خصلت ہے۔ امیری ہو یا غریبی، تندرستی ہو یا بیماری ہر حال میں صفائی ستھرائی انسان کی عزت و وقار کی محافظ ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت و عظمت کی بدترین دشمن ہے۔ دین ِاسلام نے ظاہری و باطنی دونوں طرح کی گندگیوں سے بچنے کا درس دیا ہے۔ جس طرح ہم اپنے  بدن ،لباس، استعمالی چیزوں اور گھر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اسی طرح اپنے علاقے اور محلہ کو بھی صاف ستھرا رکھنا  ہماری  اخلاقی ذمہ داری ہے ۔افسوس ناک حادثہ: پچھلے دنوں باب المدینہ کراچی کے علاقہ کھڈامارکیٹ میں رات کے وقت کچرے کے ڈھیر میں لگنے والی آگ کے دھوئیں نے ایک رہائشی عمارت کی پہلی منزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کے نتیجے میں دم گھٹنے سے 7 سالہ آمنہ ،3 سالہ ایان  اور ایک سالہ عبد العزیز زندگی کی بازی ہار کر موت کی وادی میں چلے گئے جبکہ بچوں کی والدہ کو تشویش ناک حالت میں I.C.Uمیں داخل کیا گیا۔ اللہتعالیٰ لَواحقین کو صبرِِ جمیل اور اس پر ثوابِِ عظیم عطا فرمائے۔(آمین) کچرے کے ڈھیر میں آگ کسی  نے جان بوجھ کر لگائی یا کسی کی غلطی کی وجہ سے بھڑک اٹھی،بہر حال ایک خاندان پر صدمات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ تین ننھی مسکراتی کلیاں مرجھا گئیں اورخوشیوں بھرے گھرمیں اداسیوں نے بسیرا کرلیا ۔اس حادثے کا ذمہ دار کسےقرار دیا جائے؟  اہلِ محلہ کو جو اس رہائشی عمارت کے نیچے کچرےکا ڈھیر لگاتےرہے اور ناسمجھی میں دوسروں کی موت کا سامان تیار کرتے رہے ،یا پھر ان افراد کو ذمہ دار قرار دیا جائے جو ہر ماہ کی تنخواہ تولیتے ہیں مگر صفائی کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہفتوں بلکہ مہینوں تک  اپنی شکل تک نہیں دکھاتے، پھر جب کوئی ایسا حادثہ ہوجاتا ہے تواپنی کوتاہی وسستی کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں پر الزام ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں۔

بابُ المدینہ کراچی جیسے بڑے شہر میں جگہ جگہ اُبلتے گٹرجن کا پانی گلیوں اور سڑکوں پر ایک تالاب کی صورت اختیار کرجاتا ہے اور جابجا کچرے کے خود ساختہ ڈھیر اس بات کی جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ مجموعی طور پر ہم صفائی ستھرائی کے معاملے میں اسلامی اَحکامات پر عمل کرنا چھوڑ چکے ہیں ۔نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری حالت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔(جامع صغیر، ص:22، حدیث: 257)حضرت علامہ عبد الرؤف مناویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حکّام اور علما کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر ،ج1،ص249)

اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کرنے والا شخص قصور وار ہوتا ہے  لیکن ایسے حادثات کی روک تھام کرنےکےلئے ہماری بھی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے گھر ،دکان ،محلہ اور علاقے کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں،اپنا گھر صاف رکھنے کے لئے گلی میں کچرا نہ پھیلائیں ، گلی کو صاف رکھنے کے لئےچوک کو کچراکُنڈی نہ بنائیں ، ہرعقل رکھنے والا اسلامی بھائی میری اس بات سے اتفاق کرے گا تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم روزانہ کچرے کے ڈھیر میں اضافہ کردیتے ہیں ،کوئی نہیں رُکتا آپ تو رُک جائیں اور کچرا وہاں ڈھیر کریں جہاں انتظامیہ نے جگہ مخصوص کی ہو ،کیایہ فریاد اس قابل نہیں کہ اس پر غور کیا جائے ،ذرا سوچئے!

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری


Share