اِرشادِ باری تعالیٰ ہے: (قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱))
ترجمۂ کَنْزُالایمان:اے محبوب! تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤاللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ3،اٰل عمرٰن:31)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر:بعض کفاراللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے تھے ، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیں :اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہوتو میری پیروی کرو کیونکہ محبت ِالٰہی کے دعویٰ میں سچائی کی علامت ہی یہی ہے ، اس کے بغیر تمہارا دعویٰ قابلِ قبول نہیں ، اگر تم میری پیروی کرو گے تو تم پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت یہ ہو گی کہ خود رب تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ بخش دے گااور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں:
(1) ہر شخص پر یہ لازم ہے کہ وہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع اور پیروی کرے۔حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم یہودیوں کی کچھ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں بھلی لگتی ہیں کیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اجازت دیتے ہیں کہ کچھ لکھ بھی لیا کریں؟ نبیِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ کیا تم یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح حیران ہو!میں تمہارے پاس روشن اور صاف شریعت لایا ہوں اور اگر آج حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔“(شعب الایمان،ج1،ص199،حدیث: 176)
(2) رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیروی کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی دو خصوصی عنایتیں ہوں گی،ایک یہ کہاللہ تعالیٰ اسے اپنا محبوب بنا لے گا۔دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا۔
لہٰذا جو محبوبِِ الٰہی بننااورگناہوں کی مغفرت کروانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے تمام اَقوال و افعال میں حضور پُرنُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کامل پیروی کرے ۔
ترغیب کے لیے یہاں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی اتباعِ ِرسول کے دو بے مثل واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا،پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا:ایک بارحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایااور فراغت کے بعد مسکرائے تھے (تو میں نے انہی کی ادا کو ادا کیا ہے۔) (مسندامام احمد،ج1،ص130، حدیث:415)
(2)حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے۔ لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’میں (اس کی حکمت)نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر رہا ہوں۔(شفا شریف،ص15)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کامل اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مفتی محمد قاسم
عطاری
٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments