دار الافتاء اہلسنّت (دعوتِ اسلامی)مسلمانوں کی شرعی رہنمائی میں مصروفِ عمل ہے۔ تحریراً، زبانی، فون اور دیگر ذرائع سے ملک وبیرونِ ملک سے ہزار ہا مسلمان شرعی مسائل دریافت کرتے ہیں۔ جن میں سے دو منتخب فتاویٰ ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟ (2)اگر بچہ عقیقے کے وقت اس جگہ حاضر نہ ہو تو کیا عقیقہ ہوجاتا ہے، یا نہیں؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
)1(ساتویں دن ”عقیقہ“ کرنا بہتر ہے اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو زندگی میں جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہوجائے گی، البتہ ساتویں دن کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے، اس کے یاد رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا، اُس دن سے ایک دن قبل ساتواں دن بنے گا۔مثلاً بچہ جمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتواں دن ہے اور ہفتے کو پیدا ہوا تو ساتواں دن جمعہ ہوگا، پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو ”عقیقہ“ کریگا اس میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔ہاں البتہ فوت ہوجانے کے بعد ”عقیقہ“ نہیں ہو سکتا کہ عقیقہ شکرانہ ہے اور شکرانہ زندہ کیلئے ہی ہوسکتا ہے۔
)2(”عقیقہ“ کرتے وقت بچے کا عقیقے کی جگہ حاضر ہونا کوئی ضروری نہیں، بلکہ اگر بچہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اس کی طرف سے عقیقہ ہوجائے گا۔
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ والدین کو اولاد کے حقوق گنواتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:ساتویں اور نہ ہو سکے تو چودہویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے۔ (مشعلة الا رشاد فی حقو ق الاولاد، ص 16)
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تحریر فرماتے ہیں: ساتویں دن اوس (اُس) کا نام رکھا جائے اور اوس(اُس) کا سرمونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وقت عقیقہ کیا جائے۔ اور بالوں کو وزن کر کے اوتنی (اُتنی) چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے۔(بہارِشریعت،ج 3،ص355)
مزید فرماتے ہیں:عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہو جائے گی۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اکیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اوس دن کو یاد رکھیں اوس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے وہ ساتواں ہوگا مثلاًجمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتویں دن ہے اور سنیچر کو پیدا ہوا تو ساتویں دن جمعہ ہوگا پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو عقیقہ کریگا اوس (اُس) میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔(بہارِشریعت، ج3،ص356)
مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے سوال ہوا کہ مردہ کی جانب سے ”عقیقہ“ جائز ہے،یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً تحریر فرمایاہے:مردہ کا ”عقیقہ“ نہیں ہوسکتا کہ عقیقہ دم ِ شکر ہے اور یہ شکرانہ زندہ ہی کیلئے ہوسکتا ہے۔(فتاویٰ امجدیہ،ج 2،ص336)
وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
عبدہ المذنب فضیل رضا العطاری عفی عنہ الباری
25شعبان المعظم 1437 ھ/02جون 2016 ء
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض علاقوں میں باپ وغیرہ سرپرست لڑکی کے نکاح کے عوض کثیر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس رقم کے عوض لڑکی کا نکاح کرتے ہیں۔ یہ رقم مہر و جہیز کے علاوہ ہوتی ہے۔ اور یہ رقم لڑکی کو نہیں دیتے بلکہ رشتہ دینے کے عوض اپنے لیے لیتے ہیں ۔ اس کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟ بیان فرمادیں۔ سائل:ممتاز(تھر پار کر ،سندھ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
رشتہ دینے کے عوض رقم کا مطالبہ کرنا اور اس رقم کے بدلے رشتہ دینا ناجائز و حرام ہے کہ یہ رشوت ہے۔رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رشوت لینے اور دینے والے کے متعلق لعنت فرمائی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ:لعن رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم الراشی و المرتشی۔ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رشوت دینے والے اور لینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے۔(ابو داؤد، ج2،ص148)
ایک اور حدیث پاک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ومامن قوم یظھر فیھم الرشا الا اخذوا بالرعب۔ اور کوئی قوم ایسی نہیں کہ جس میں رشوت عام ہوجائے مگر انہیں مرعوبیت میں مبتلا کردیا جاتا ہے ۔(مشکوة ،ج2،ص656)
حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں :”یعنی رشوت لینے والا شخص مرعوب ہوتا ہے اور رشوت لینے والی قوم پر دوسری قوم کی ہیبت طاری ہوجاتی ہے جیسا کہ آج ہم لوگ کفار سے مرعوب ہیں۔“(مراٰة المناجیح ،ج 5،ص338)
عالمگیری میں ہے :خطب امراۃ فی بیت اخیھا فابی ان یدفعھا حتی یدفع دراھم فدفع وتزوجھا یرجع بما دفع لانھا رشوۃ۔ عورت کہ جو اپنے بھائی کے گھر میں تھی اسے کسی شخص نےنکاح کا پیغام بھیجا تو اس کے بھائی نے نکاح سے انکار کیا یہاں تک کہ اس کو کچھ دراہم دیئے جائیں تو اس شخص نے دراہم دیئے اور نکاح کرلیا تو جو دراہم اس نے دیئے وہ واپس لے کیونکہ وہ رشوت ہیں۔(عالمگیری ،ج 4،ص403)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں: اگر وُہ روپیہ دینے والا اس لئے دیتا ہے کہ اس کے لالچ سے میرے ساتھ نکاح کردیں جب تو وہ رشوت ہے اس کا دینا لینا سب ناجائز وحرام۔یُوں ہی اگر اولیائے عورت نے کہاکہ اتنا روپیہ ہمیں دے تو تجھ سے نکاح کردیں گے ورنہ نہیں جیسا کہ بعض دہقانی جاہلوں میں کفار ہنود سے سیکھ کر رائج ہے تو یہ بھی رشوت و حرام ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 12،ص284 ، ملخصاً)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ، اس غرض سے لی گئی رقم جس سے لی اس کو واپس کرنا ضروری ہے ۔علامہ محقق ابنِ عابدین الشامی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بحر الرائق کی عبارت (لوخطب امراۃ فی بیت اخیھا فابی الاخ الا ان یدفع الیہ دراھم فدفع ثم تزوجھا کان للزوج ان یسترد ما دفع لہ عورت کہ جو اپنے بھائی کے گھر میں تھی اسے کسی شخص نےنکاح کا پیغام بھیجا تو اس کے بھائی نے نکاح سے انکار کیا حتی کہ اس کو کچھ دراہم دیئے جائیں تو اس شخص نے دراہم دیئے پھر اس سے نکاح کرلیا تو جو دراہم اس نے دیئے ہیں شوہر وہ واپس لے سکتا ہے) کے تحت منحۃ الخالق میں فرماتے ہیں :”ای قائما او ھالکا لانہ رشوۃ کذا فی البزازیۃ“۔ یعنی وہ دراہم خواہ اس کے پاس موجود ہوں یا اس کے پاس ہلاک ہوچکے ہوں (بہر صورت واپس لے سکتا ہے ) کیونکہ یہ رشوت ہے ۔ اسی طرح فتاوٰی بزازیہ میں ہے۔(منحة الخالق مع بحر الرائق،ج 3،ص324)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:یہ روپے جو(نکاح میں دینے کے عوض ) باندھے گئے ہیں محض رشوت وحرام ہیں، نہ ان کاکھانا جائز، نہ بانٹ لیناجائز، نہ مسجد میں لگانا جائز، بلکہ لازم ہے کہ جس شخص سے لئے ہیں اسے واپس دیں۔(فتاوٰی رضویہ،ج 23،ص538)
وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
عبدہ المذنب فضیل رضا العطاری عفی عنہ الباری
08 ربیع الثانی 1438 ھ/07جنوری 2017 ء
Comments