حضرت سیِّدَتُنا اَسماء بنتِ ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی ذات اَن گِنت خوبیوں اور فضائل وکمالات کی جامع ہے۔ ہجرت سے 27 برس پہلےآپ کی وِلادت ہوئی (معرفۃ الصحابہ،ج5،ص182) اور حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اعلانِ نبوت فرمانے کے ابتدائی اَیَّام میں ہی مُشَرَّف بہ اسلام ہو گئیں۔ کہا گیا ہے کہ آپ نے 17 اَفْراد کے بعد اسلام قبول کیا۔ (استیعاب،ج 4، ص346) چنانچہ آپ کا شمار قدیمُ الاسلام صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں ہوتا ہے۔
محبتِ رسول
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا پیکرِ عشق ووَفا، امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی لختِ جگر ہیں۔ یوں محبتِ رسول اور عشقِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گویا آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ صفحاتِ تاریخ میں آپ کے عشقِ رسول کے واقعات اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں۔ ہجرت کے موقع پر جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے عاشقِ صادق حضرت صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ عازِمِ مدینۂ مُنَورہ ہوئے تو اس موقع پر اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ اور حضرت اسماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ہی زادِ سفر تیا ر کرنے کی خدمت سرانجام دی، جب باندھنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو وارَفتگیِ شوق میں حضرت اسماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے نِطاق (کمر پر باندھنے کے کپڑے) کے2 ٹکڑے کر کے اس سے سامانِ سفر باندھ دیا، اسی وجہ سے آپ کا لقب”ذَاتُ النِّطَاقَیْن“ ہے۔ (بخاری،ج 2،ص304، حدیث:2979)
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ایک جُبہَّ تھا جو اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے وِصال شریف کے بعد آپ کو ملا تھا، جب کوئی بیمار ہوتا تو بیماری سے شِفا کے لئے اس مُبَارَک جُبہ کو دھو کر اس کا پانی مریض کو پِلا دیتیں۔(مسندِ امام احمد،ج 10،ص271، حدیث:27008)
ازدواجی زندگی
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا نِکاح عشرۂ مبشرہ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت سیِّدنا زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ہوا۔ اس اِزْدِوَاجی زندگی میں بعض اوقات انہیں مالی لحاظ سے بڑی تنگی وعسرت کا سامنا رہا لیکن کبھی اس سے پریشان خاطِر نہ ہوئیں اور زبان سے کبھی اظہارِ رنج نہ کیا۔ گھر کے سارے کام کاج خود کرتی رہیں اور محنت ومُشقَّت سے کبھی جی نہیں چرایا۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس ایک گھوڑا اور آب پاشی کے لئے ایک اونٹ تھا، آپ گھوڑے کو چارا ڈالتیں، پانی پلاتیں، ڈول سی لیتیں اور گھر سے کوئی 3فرسخ دور جا کر چھوہاروں کی گٹھلیاں چُن کر لاتیں۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کام کاج کے لئے آپ کو ایک خادِم دے دیا جس سے آپ کا بوجھ کم ہو گیا، خود فرماتی ہیں: میرے والد نے مجھے ایک خادِم عطا فرمایا، میری جگہ وہ گھوڑے کو چارا پانی دینے لگا اور میں گویا آزاد ہو گئی۔
(بخاری،ج 3،ص469، حدیث:5224ملخصاً)
اسلام سے محبت
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی اسلام سے محبت اور کفر سے عداوت بھی بےمثال تھی، اس کی حالت یہ تھی کہ آپ کی حقیقی ماں قُتَیلَہ جس نے اسلام قبول نہ کیا تھا، ایک بار آپ کے لئے کچھ تحائف لے کر آئی لیکن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے انہیں لینے سے انکار فرما دیا اور حضرت عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ذریعے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس بارے میں دریافت کیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے انہیں قبول کرنے کی اجازت عطا فرما دی (تب آپ نے یہ تحائف قبول فرمائے)۔ (مستدرک حاکم،ج3،ص302، حدیث:3857)
اندازِ سخاوت
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بےحد سخی اور فیاض طبیعت کی مالِک تھیں، آپ کی سخاوت کا عالَم یہ تھا کہ کوئی چیز اپنے پاس بچا کر نہ رکھتی تھیں، جو کچھ ہوتا فقیروں اور حاجت مندوں پر خرچ کر دیا کرتیں چنانچہ آپ ہی کے نورِنظر حضرت سیِّدنا عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: میں نے اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ اور والِدہ ماجِدہ حضرتِ اسماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے بڑھ کر کوئی سخی نہیں دیکھا، ان دونوں کا اندازِ سخاوت مختلف تھا،حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا چیزیں جمع کرتی رہتیں، جب کافی مقدار ہو جاتی تو انہیں تقسیم فرماتیں اور والدہ ماجِدہ حضرت اسماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کوئی بھی چیز دوسرے دن کے لیے بچا کر نہ رکھتی تھیں۔ (بلکہ جیسے ہی کچھ آتا صدقہ فرما دیتیں)(الادب المفرد، ص80، حدیث:280)
حق گوئی، جرأت اور دلیری نیز صبر واستقلال اور تسلیم و رضا ساری زندگی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا طرۂ امتیاز رہا۔ وقت کے ظالم حاکم حجاج بن یوسف کے سامنے آپ نے جس جرأت اور دلیری کا مُظَاہَرہ کیا تاریخ میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے، چنانچہ عبدالملک بن مروان کے زمانۂ حکومت میں حجاج بن یوسف ثقفی ظالم نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اس ظالم کی فوجوں کا مُقَابلہ کیا تو اس خون ریز جنگ کے وَقْت بھی حضرت اسماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا مکہ مکرمہ میں اپنے فرزند کا حوصلہ بڑھاتی رہیں یہاں تک کہ جب حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو شہید کر کے حجاج بن یوسف نے ان کے جسدِ مبارَک کو سولی پر لٹکا دیا اور اس ظالم نے مجبور کر دیا کہ حضرت بی بی اسماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا چل کر اپنے بیٹے کے جسدِ خاکی کو سولی پر لٹکا ہوا دیکھیں تو آپ وہاں تشریف لے گئیں، جب انہیں سولی پر دیکھا تو نہ روئیں نہ بِلبلائیں بلکہ(آپ کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے ) نہایت جرأت کے ساتھ فرمایا: اَمَا آنَ لِلرَّاکِبِ اَنْ یَنْزُلَ کیا ابھی وہ وَقْت نہیں آیا کہ یہ سوار بھی اُتر آئے؟(جنتی زیور، ص527، بتغیر قلیل وسیر اعلام النبلاء،ج3،ص531)
اسی طرح حجاج نے آپ کے پاس آ کر بڑے نَخْوَت بھرے لہجے میں گستاخانہ جملہ بولاجسے تحریرکرنے کی ہمت نہیں، اس پر بھی آپ نے بڑی جرأت کا مُظَاہَرہ کرتے ہوئے فرمایا: میں دیکھ رہی ہوں کہ تو نےاُس کی دنیا خراب کی تو اُس نے تیری آخرت برباد کر ڈالی۔(مسلم، ص1377، حدیث:2545)
وصالِ باکمال
دشمن سے برسرِ پیکار رہتے ہوئے 17جُمادی الاولیٰ 73 ہجری کو حضرت عبد اللہ بن زُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جامِ شہادت نوش فرمایا (طبقات الکبریٰ،ج8، ص201) ایک قول کے مطابق اس کے دس روز بعد (یعنی 27جمادی الاولیٰ کو) حضرت اسماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بھی اس دارِ فانی سے انتقال فرما گئیں۔ (استیعاب،ج4،ص346) وفات شریف کے وقت آپ کی عمر مبارک سو برس تھی اور اس قدر سِن رسیدہ ہونے کے باوجود آپ کا کوئی دانت نہ گِرا تھا اور عقل وحواس بھی بالکل صحیح وسلامت تھے۔(اصابہ،ج8،ص14)
Comments