حضرت سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما

مدنی منّے کی آمد ہوگئی: رحمتِ دوجہاں  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مدینے میں جلوہ گری پر ایک جانب خوش بخت اپنی قسمت چمکارہے تھے اور اپنے دامن میں ایمان کی دولت سمیٹ رہے تھے۔ دوسری طرف بد بخت لوگ اور کم بخت یہودی اسے غم وغصہ اور حسد و کینہ کا سبب بنا رہے تھے۔ اس دوران یہ خبر گردش کرنے لگی کہ یہودیوں نے مکے سے آنے والوں پر جادو کروادیا ہے تاکہ ان کے کوئی اولاد نہ ہو اور ان کا سلسلہ یونہی ختم ہوجائے۔ لیکن ایمان والے اللہتعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رضا پر ثابت قدم تھے جبکہ ہر آنے والا دن یہودیوں کی خوشی کا باعث بنتا جارہا تھا ۔ یہاں تک کہ دن ہفتے اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے۔ انصار صحابہ کے گھر ننھے مدنی منّوں کی آمد ہوگئی لیکن مہاجرین صحابہ کے گھر میں کسی بچے نے آنکھ نہ کھولی۔ بالآخر آٹھویں جبکہ بعض روایتوں کے مطابق بیسویں  مہینے شوال المکرم میں خوشی کی مسکراتی ہوئی گھڑی آئی اورایک مہاجر صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے گھر چاند سے مدنی منّے کی آمد ہوگئی۔ والدِ ماجد اورمحترم نانا نے مہاجرین و انصار کوجونہی یہ روح پَرورخبر سنائی توہر ایک خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ یکبارگی نعرۂ  تکبیر بلند ہوا، جس سے مدینے کی فضا گونج اٹھی جبکہ یہودی اپنا سا منہ لے کر رَہ گئے۔ مدنی منے کو ماں کا دودھ پلانے سے پہلے بارگاہِ رسالت میں پیش کیا گیا۔ مصطفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مدنی منے کے کان میں اذان کہنے کا حکم ارشاد فرمایا،پھر کھجور منگوائی، اسے دانتوں سے چبایا اور بطورِ گھٹی اس بچے کے منہ میں رکھی ۔ سعادتوں کے طلبگار نے اسے چوسنا شروع کردیا ۔ یوں سب سے پہلے اس مدنی منے کے پیٹ میں جو چیز پہنچی وہ سرکار ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا لعابِ دہن تھا۔ اس کے بعد رحمت ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس مدنی منّے کا نام عبد اللّٰہ تجویز کیا ۔ (الزرقانی علی المواہب ،ج2،ص356)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مہاجرین و انصار کے گھر خوشی کے دئیے روشن کرنے والے یہ مدنی منے حضرت صدیقِ اکبر کے نواسے، حضرت صفیہ بن عبد المطلب کے پوتے، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے بھانجے ،حضرت زیبر بن عوام  کے فرزندِ ارجمند ، حضرت اسماء بنتِ ابو بکر عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے لختِ جگر، مشہور صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء،ج 1،ص410)

تم پیچھے کیوں نہیں ہٹے؟(حکایت):بچپن میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا گزر ہوا تو بچے ڈر کر پیچھے ہٹ گئے مگر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسی جگہ کھڑے رہے، یہ دیکھ کر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے تعجب سے پوچھا: تم دیگر بچوں کے ساتھ پیچھے کیوں نہیں ہٹے؟ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: میں نہ تومجرم ہوں کہ آپ سے ڈروں اور نہ ہی راستہ روک کر کھڑا ہوں کہ اپنے قدم پیچھے ہٹاؤں۔(تاریخ ابن عساکر،ج 28،ص165)

خشوع وخضوع کے ساتھ نماز(حکایت): حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا انتہائی توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے تھےایک مرتبہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور قریب ہی آپ کا مدنی منّا موجود تھا کہ اچانک چھت سے ایک سانپ مدنی منّے کے قریب گر پڑا۔ لوگوں نے ”سانپ سانپ“ کہہ کر شور مچایا اور آخر کار اسے مار دیا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج4،ص464) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب سجدے میں جاتے تو اتنا طویل سجدہ فرماتے کہ پرندے آپ کی پیٹھ کو ٹوٹی ہوئی دیوار کاحصہ سمجھتے اور اس پر بیٹھ جاتے تھے۔(موسوعہ ابنِ ابی الدنیا،ج1،ص341)

راتوں میں عبادت کے مختلف انداز: آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنی راتوں کو تین انداز میں تقسیم کیا ہوا تھا، ایک رات عبادت کے دوران کھڑے رہتے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ، ایک رات رکوع میں گزار دیتے، حتی کہ صبح کی سفیدی نمودار ہوجاتی جبکہ ایک رات حالت ِسجدہ میں یوں گزارا کرتے کہ سحر(صبح) ہوجاتی۔ (اسد الغابہ،ج 2،ص245)

مسجد کا کبوتر: کسی نے والدۂ ماجدہ حضرت اسماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے آپ کے متعلق دریافت کیا توانہوں نے فرمایا: میرے بیٹے کی اکثر راتیں قیام میں جبکہ دن روزے میں کٹتے تھے، اسی وجہ سے انہیں حَمَامَۃُ الْمَسْجِد(یعنی مسجد کا کبوتر) کہا جانے لگا۔(حلیۃ الاولیاء،ج 1،ص411)

تیرتے ہوئے طواف مکمل کیا(حکایت):حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے رب تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے عبادت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانےنہ دیتے تھے، یہاں تک کہ دیگر لوگ عاجز آجاتے چنانچہ ایک مرتبہ مکہ معظمہ میں گھنگھور گھٹا چھائی اورخوب بَرکھا (بارش) برسی، پہاڑوں سے برساتی نالہ بہتا ہوا بیت اللہُ  شریف کے آس پاس جمع ہوگیا، یہاں تک کہ لوگوں کے لئے چلنا پھرنا اور طواف کرنادشوار ہوگیا ۔اس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے تیرنا شروع کردیا اور تیرتے ہوئے اپنا طواف مکمل کیا۔(موسوعہ ابنِ ابی الدنیا ،ج8،ص423)

کعبہ شریف پر ریشمی غلاف:اِبتدائے اسلام میں کعبۂ معظمہ پر چمڑے کا غلاف ہوتا تھالیکن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے تعظیم ِکعبہ کی خاطر ایک نئے اور عمدہ کام کی بنیاد رکھتے ہوئے ریشم کا غلاف چڑھایا۔اسی طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کعبۃ اللّٰہ شریف کو خوب خوشبو لگاتے یہاں تک کہ حرم کے اطراف معطر ومعنبر ہوجایا کرتے تھے ۔ (سیر اعلام النبلاء ،ج 4،ص467)

فصیح وبلیغ خطیب:آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنہایت فصیح وبلیغ تھے، اسی وجہ سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا شمار قریش کے نمایاں خطبا میں ہوا کرتا تھا۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 28،ص179)آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی آواز گرج دار اور بلند تھی ،حتی کہ جب خطبہ ارشاد فرماتے اور آواز پہاڑوں سے ٹکراتی اور لوٹتی تو یوں معلوم ہوتا کہ پہاڑ ایک دوسرے سے گفتگو کررہے ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ داڑھی مبارک میں زرد خضاب لگاتے تھے،جبکہ زلفیں کانوں سے ڈھلک کر گردن کوچھونے لگ جاتی تھیں۔(سیر اعلام النبلاء ،ج4،ص465)

یزید کی بیعت سے انکار کردیا:حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سچ بولنے والے ، حق کی خاطر لڑنے والے اور بے مثال شمشیر زن (تلوار چلانے والے) تھے، چنانچہ یزید نے جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے بیعت لینی چاہی تو آپ نے اس کے خط کو پھینک دیا اور فرمایا: میں ناحق مطالبے کو پورا کرنے کے لئے معمولی سے نرمی بھی اختیار نہیں کروں گا۔(حلیۃ الاولیاء،ج1،ص406)

آپ کی خلافت اورشہادت:64ھ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے خلافت کا اعلان کیا ، بعدمیں سوائے شام کے سبھی علاقوں پرآپ کی خلافت قائم ہوگئی ،سن 73 ہجری میں عبدالملک بن مروان نے اقتدار سنبھال کر اپنی بیعت کا اعلان کیا اوربنو امیہ کے ظالم  گورنر حجاج بن یوسف کو ایک لشکر کا امیر مقرر کرکے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ کیا ۔حجاج مکہ پہنچ کر ”ابو قبیس“ نامی پہاڑپر چڑھا اوراس پر مِنْجَنِیق (پتھرپھینکنے کا آلہ)نصب کرنے کا حکم دیا ،پھر اسی منجنیق کے ذریعہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور آپ کے اصحاب پر پتھر برسائے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس ظالم کی فوجوں کا خوب ڈَٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اصحاب چھتوں پر چڑھ کر دشمن پر اینٹیں پھینکنے لگے، اس دوران دشمن کا پھینکا ہوا ایک پتھر آپ کے سر پر لگا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ زخم کی تاب نہ لاسکے اور زمین پر تشریف لے آئے۔ دشمن نے آگے بڑھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوشہیدکردیا۔(حلیۃ الاولیاء،ج1،ص407) یہ واقعہ 17 جُمادَی الاولیٰ 73ہجری میں پیش آیا۔ (تاریخ الخلفاء،ص:169)


Share