میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! انسان کی ذات اچھائیوں اور بُرائیوں کا مجموعہ ہے، اس کی بعض برائیاں و خامیاں دوسروں کو معلوم ہوتی ہیں اور کچھ چھپی رہتی ہیں۔ مگر چند لوگوں کی طبیعت مکھی کی طرح ہوتی ہے جو سارا جسم چھوڑ کر زخم پر بیٹھنا پسند کرتی ہے، چنانچہ یہ لوگ دوسروں کی چھپی ہوئی برائیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان بُرائیوں اور عیبوں کو دوسروں پر کھولنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اس قسم کے جملے ان کی زبان پر آتے رہتے ہیں: ٭ارے تمہیں پتہ چلا! فلاں کی اپنی بیوی سے کل زبردست لڑائی ہوئی ٭فلاں کو اس کے مالکِ مکان نے بہت ذلیل کیا ٭فلاں بہت ڈرپوک ہے، کل گھر میں چوہا آگیا تو ڈر کے مارے گلی میں آگیا تھا ٭فلاں بہت لالچی ہے ٭فلاں کا بچہ پڑھائی میں بہت کمزور ہے اسے روزانہ اسکول میں سزا ملتی ہے ٭فلاں عورت کی اپنی ساس سے نہیں بنتی، کل ہی ان کی تُو تُو میں میں ہوئی ہے ٭فلاں شخص فلاں کے گھر رشتہ مانگنے گیا تو انہوں نے ذلیل کر کے گھر سے نکال دیا وغیرہ۔ اس کام میں انہیں عجیب قسم کی شیطانی لذّت ملتی ہے۔ انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ خود کتنے بُرے کام کرچکے ہیں۔
ایک بُرا کام تو یہ کہ دوسروں کے عیب جاننے کی جستجو کی اور اس سے قرآنِ پاک میں منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لَا تَجَسَّسُوْا (پ26،حجرات:12) ترجمۂ کنزالایمان:اور عیب نہ ڈھونڈو۔(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور اُن کے چُھپے حال کی تلاش میں نہ رہو، جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی سَتّاری سے چُھپایا۔ (خزائن العرفان)
دوسرا یہ کہ اس کے عیبوں کو اچھالا اور لوگوں میں عام کیا، یہ بھی مذموم (یعنی بُرا) ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہوجائے گا۔(ترمذی،ج 3،ص416، حدیث: 2039)
حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو کسی کو بِلا وجہ بَدنام کرے گا قدرت اسے بَدنام کر دے گی۔(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص618)
گناہ جھڑتے دکھائی دیتے تھے
حکایت: ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابُو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جامِع مسجِد کُوفَہ کے وُضو خانے میں تشریف لے گئے تو ایک نوجوان کو وُضو کرتے ہوئے دیکھا،اُس سے وُضو میں اِسْتِعْمال شُدہ پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: بیٹا! ماں باپ کی نافرمانی سے توبہ کر لے۔ اُس نے عرض کی: میں نے توبہ کی۔ ایک اور شخص کے وُضو کے پانی کو مُلاحَظَہ فرمایا، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اُس شخص سے ارشاد فرمایا: میرے بھائی! بدکاری سے تَوبہ کر لے۔ اُس نے عرض کی: میں نے تَوبہ کی۔ ایک اور شخص کے وُضو کے پانی کو دیکھا تو اُس سے فرمایا: شَراب پینے اور گانے باجے سُننے سے توبہ کر لے۔ اُس نے عرض کی: میں نے تَوبہ کی۔ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پر غیبی باتوں کے اِظہار کے باعِث چُونکہ لوگوں کے عُیُوب ظاہِر ہوجاتے تھے لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے بارگاہِ خُداوَندی میں غیبی باتوں کے اِظہار کے ختم ہوجانے کی دُعا مانگی، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دُعا قَبول فرما لی جس سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ کو وُضو کرنے والوں کے گناہ جھڑتے نظر آنا بند ہوگئے۔(المِیزانُ الکبریٰ، جزء: 1، ص 130)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ تھا ہمارے بزرگانِ دین کا انداز کہ دوسروں کا عیب نہ دیکھنا پڑے، اس کے لیے دعا مانگی، اللہ تَعَالیٰ ہمیں بھی دوسروں کے عیب ڈھونڈنے، انہیں اچھالنے سے بچائے۔ اگر بغیر کوشش کے کسی کے عیب معلوم ہوبھی جائیں تو ”پَردہ پوشی“ کرنی چاہیے، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: جس نے کسی مسلمان کی ”پَردہ پوشی“ کی اللہ عَزَّوَجَلَّ دنیا و آخرت میں اس کی ”پَردہ پوشی“ فرمائے گا۔(مسلم، ص 1110، حدیث: 2699، ملتقطاً) مراٰۃ المناجیح میں ہے: (یعنی) چُھپے ہوئے عیب ظاہر نہ کرے! بشرطیکہ اس ظاہر نہ کرنے سے دین یا قوم کا نقصان نہ ہو، ورنہ ضرور ظاہرکر دے! کفار کے جاسوسوں کو پکڑوائے! خفیہ سازشیں کرنے والوں کے راز کو طَشْت اَزْبام (یعنی ظاہر) کرے! ظلماً قتل کی تدبیر کرنے کی مظلوم کو خبر دے دے! اخلاق اور ہیں، معاملات اور سیاسیات کچھ اور۔(مراٰۃ المناجیح،ج1،ص189)
کسی کی خامیاں دیکھیں نہ میری آنکھیں اور
سنیں نہ کان بھی عیبوں كا تذكره ياربّ
(غیبت کی تباہ کاریاں، ص 334)
Comments